حکیم الامت علامہ اقبالؒ کی ایک نظم ہے ’’لالۂ صحرائی‘‘ ۔ یوں تو یہ ساری نظم خاصے کی چیز ہے ۔ اس کا ہر مصرعہ سلکِ مروارید اور ہر لفظ گنج شائیگاں ہے ۔ موجودہ معاشی ، سیاسی ، آئینی ، داخلی، خارجی اور انتظامی بحرانوں کے گردابوں کو دائرہ در دائرہ گلی کوچوں، کھیتوں کھلیانوں، میدانوں اور ایوانوں میں دھمالیں ڈالتا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے اس نظم کا ایک شعر پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت کی بے بسی و بے کسی، عدم کارکردگی اور نا اہلی دیکھ کر بے ساختہیہ شعر یاد آجاتا ہے کہ:
اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ـٹکرائی
10اپریل 2022ء سے پہلے پی ڈی ایم کے ’کوہ قامت‘ سیاست کاروں نے پی ٹی آئی کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کیلئے کیا کیا پاپڑ نہیں پیلے ،کیا کیا جتن نہیں کیے اوران سیاست کاروں نے عوام کو کیا کیا سبز باغ نہیں دکھائے۔ ان رہنماؤں کے اکثر بیانات بلند بانگ ، اکثر دعوے دلفریب اور اکثر وعدے خوش نما تھے۔ گماں گزرتا تھا کہ اگر پی ڈی ایم کی ایک درجن سے زائد جماعتیں تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہو گئیں تو پاکستان میں ہریالیوں اور خوشحالیوں، شادمانیوں اور کامرانیوں کے ایک سنہرے دور کاآغاز ہو گا۔ خوشحالی اور ہریالی ، شادمانی اور کامرانی کے دلکشا منظر عوام کو عمران خان کے ’’عہد مصائب‘‘ کی ’تلخ یادیں‘ بھلا دینگے۔ ہر طرف ہن برسے گا، گھنگھور گھٹائیں اٹھیں گی اور ہر گھر کے آنگن میں ڈالروں کی بارش کا جھالا بندھے گا۔
ساتویں آسمان کو چھوتے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ زمین پر آجائیں گے، مہنگائی کا قلع قمع ہو جائیگا، انتشار نام کی کوئی شے ملک کے طول و عرض میں کہیں دکھائی نہیں دیگی، عدم استحکام کے لفظ سے لوگ نا آشنا ہو جائینگے، بحر و بر ، دیوار و در اور ہر برگِ شجر پر استحکام کی گلابی اور دودھیا چاندنی چٹکتی ہوئی نظر آئیگی۔ ایک عہد زریں کا افتتاح وآغاز ہو گا لیکن آج تقریباً پونے 4 ماہ گزر چکے ہیں، صورتحال بد سے بدتر ہوتی ہوئی بد ترین ہو گئی ہے۔ وہ بھولے بھالے اور سیدھے سادے عوام آج کف افسوس ملتے ہوئے یہ شعر صدائے احتجاج کے طور پر دہراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
کہ بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
عوام مضطرب ، بے چین ،پریشان حال اور نڈھال ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی قیادت خوش ہے کہ جو بھی ہو وہ کم از کم عمران خان کوایوان اقتدار سے نکال باہر کرنے میں کامیاب رہے جبکہ ان قیادتوں کے پیروکار اور کارکنان تذبذب کے عالم میں ہیں۔ اس موقع پر مجھے شاعر کاوہ شعر یاد آ رہا ہے جو 1970ء کے انتخابی معرکے کے بعد مسلم لیگ ہاؤس کے ایک جتماع میں اس دور کے لاہور کے قد آور اور ممتاز قانون دان ملک اسلم حیات کی زبان بلاغت نظام سے سنا تھا:
چمن کے رنگ و بو نے اس قدر دھوکے دیے مجھ کو
کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی
آج پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سیاستدان اور قائدین یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ لوگ انکی بات پر کان نہیں دھرتے، انکے بیانات پر یقین نہیں کرتے، ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے اور اگر بفرض محال وہ کوئی کال دیں تو وہ اس پر لبیک کہنے کیلئے آمادگی ظاہر نہیں کرتے۔ پی ڈی ایم کی قیادت کو سوچنا چاہیے کہ انکی مقبولیت و محبوبیت کا گراف اتنی تیزی سے نیچے کیوں آیا؟ ان قائدین کا تو دعویٰ تھا کہ وہ دنوں اور ہفتوں میں تمام بحرانوں پر قابو پا لیں گے۔ عمران خان کی بچھائی ہوئی تمام بارودی سرنگوں کو ڈی فیوز کر دینگے۔ اشیائے خورو نوش کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں کو عوام کی قوت خرید کی سطح پر لے آئینگے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ’تھوڑا سا‘ اضافہ بامر مجبوری کرینگے ۔ لوڈشیڈنگ کا نام و نشان دور دور تک دکھائی نہیں دیگا۔ پور املک ، ہر شہری اور ہر گھر بقہ نور بن جائے گا لیکن تازہ ترین منظر نامے کی عکاسی غالب کا یہ شعر کر رہا ہے:
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
یوں توپی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ چاروں صوبوں کی نمائندہ حکومت ہے۔ حقائق انکے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔
پنجاب جہاں مسلم لیگ ن 1985ء سے 2018ء تک وقفوں وقفوں سے بر سر اقتدار رہی اور جسے وہ مسلم لیگ اور نواز شریف کا قلعہ گردانتے تھے، وہ قلعہ بھی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کی مشترکہ ترکتازیوں نے تسخیر کر لیا ہے۔ لاہور جو ان کا گڑھ تھا اسکی فصیلوں میں شگاف پڑ چکے ہیں۔ 1970ء سے 1977ء تک لاہور پیپلزپرٹی کا گڑھ رہا۔
5 جولائی 1977ء کے بعد 1979 ء اور 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی نے اپنی ساکھ برقرار رکھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1985ء کے غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ 1985ء میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل غلام جیلانی کی کوششوں اور کاوشوں سے میاں محمد نواز شریف ’فاتح لاہور‘ اور ’فاتح پنجاب‘ بن کر سامنے آئے۔
رفتہ رفتہ لاہور میاں محمد نواز شریف کے شہر کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوا لیکن 2018ء کے عام اور 2022ء کے ضمنی انتخابات اور عمران خان کی لاہور اور پنجاب میں حالیہ مقبولیت اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ جب بھی عام انتخابات ہوئے پنجاب میں پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کو ٹف ٹائم دیگی۔ اب تو پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کا راج ہے۔ کتنی مدت کیلئے ہے اس بارے پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی، رہ گئے پی ڈی ایم کے وزیر اعظم شہباز شریف تو ہ بہادر شاہ ظفر کا دور ہی اپنی آنکھوں میں سمالیں۔ بہادر شاہ ظفر کے والد کے زمانہ ہی میں دلی مغلوں کے ہاتھ سے نکل چکا تھا لیکن تب بھی وہ شہنشاہ عالم کہلاتے تھے لیکن گلی کوچوں میں شہنشاہ عالم از دلی تا پالم زبان زد عام تھا، بہرحال وزیراعظم تو شہباز شریف ہی ہیں۔
٭…٭…٭