خدمت کے شوقین حلقہ کے مستحقین کیلئے چار ارب جمع کرائیں


عوام کی خدمت کرنے کا بہترین حل…

محمد رمضان چشتی 

اسمبلیوں کے امیدوار کروڑوں روپیہ بینرز، تصاویر، فلیکس، جلسے، جلوسوں پر اڑا دیتے ہیں
پاکستانی عوام اس وقت مسائل کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں ایک کے بعد ایک بحران اور سیکنڈل سامنے آتا ہے اور پوری قوم اس کے پیچھے لگ جاتی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی نے الگ جینا دشوار کر رکھا ہے اورسیاستدان ہیں کہ ان کی لڑائی جھگڑے، الزامات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔جو کہتے ہیں اس پر عملدرآمد نہیں کرتے، اسی طرح ہم نے پچھتر سال گزار دیئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس ملک میں ہر نعمت عطا کر رکھی ہے۔
جب سے پاکستان بنا جو بھی حکمران برسراقتدار آیا اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ ’’میں خدمت کرنے آیا ہوں‘‘ اور آنے کے بعد وہ ایسی ’’خدمت‘‘ کرتے ہیں کہ عوام بس منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ وہ صرف اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ یہ کیسے خدمت گزار ہیں؟ اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ جو رکن اسمبلی بننا چاہتا ہے اور اُسے اس غریب قوم کا درد ہے جو اُسے راتوں کو سونے نہیں دیتا اور وہ غریبوں کے لیے رات دن بے چین رہتا ہے تو الیکشن کمیشن اس سے درخواست وصول کرے جس کے تحت وہ اپنے علاقہ میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقے میں خدمت کی درخواست پر ایک ارب روپیہ جمع کرائے اگر تین چار قوم کے ایسے غم گساروں کے حصے میں چار ارب روپیہ آجائے تو علاقے کے غریب لوگوں کا بھلا ہو جائے جن کو 2000/- روپے ملا ہے اُن کو ایک ایک لاکھ روپے مل جائیں۔ اس رقم سے کوئی اپنی بیٹی کی شادی کرے، اپنے گھر کی چھت بنائے، اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرے اور اپنا علاج کرائے۔ کچھ تو مل جائے صرف ایک بریانی کی پلیٹ پر اپنا قیمتی ووٹ نہ دے۔ سیاستدان کروڑوں روپیہ بینرز، جھنڈوں، فلیکس، تصاویر اور جلسے، جلوسوں پر اڑا دیتے ہیں۔ وعدہ کر کے ووٹ لے لیے جاتے ہیں پھر تُم کون … میں کون؟ … یہ جا اور وہ جا۔ کیونکہ ہمیں بڑا شوق ہے مخلوقِ خدا کی خدمت کا، اس طرح ان کا شوق بھی پورا اور عوام کا بھلا بھی ہو جائے گا پھر یہ بھی معلوم ہو جائے گا یہ اربوں کھربوں پتی کتنے ہیں؟۔ پھر یہ نام بھی نہیں لیں گے کہ ہم نے عوام کی ’’خدمت‘‘ کرنی ہے یا اُن کا مقصد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے؟ یہ قانون بنایا جائے مگر ایسا نہیں ہوگا کہ کسی غریب کی زندگی آسانی سے گزر جائے جو دن آتا ہے بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ جس ملک میں افسروں کی تنخواہیں لاکھوں روپے ہوں اور انہیں دنیا کی ہر قسم کی سہولت میسر ہو جبکہ روز بہ روز قرضے پر قرضے  چڑھ رہا ہو، سود دینے کیلئے قرضے لیے جاتے ہوں۔ پھر ہم یہ کہیں کہ ہم خوشحالی کی طرف جا رہے ہیں جبکہ پارلیمنٹ میں سو روپے میں بہترین بوفے دستیاب ہیں اور عوام کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو اُس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔ کرایہ کا مکان ہو، بچے کہاں تعلیم حاصل کریں؟ بیمار ہو جائیں یا بوڑھے ماں باپ کہاں جائیں؟ مرنا بھی اُن کے لئے مشکل ہے، مرنے کے بعد بھی کفن دفن کیلئے لاکھ روپیہ چاہئے۔
پارلیمنٹ والوں کیلئے گاڑیاں، ہوائی جہاز جبکہ یہ عوام کو کیا دے رہے ہیں گالی گلوچ اور تقاریر کے سوا، کم سے ایک حلقے میں اگر چار ارب روپیہ تقسیم کریں پھر پتا چلے کہ یہ کتنے ’’ہمدرد‘‘ ہیں۔ مجھے نہیں لگتا یہ کھرب پتی آگے آئیں گے؟ پھر چاہئے عوام جسے مرضی ووٹ دیں غریب عوام کو ایڈوانس میں کچھ تو مل جائے گا پھر اُن کا دل نہیں دکھے گا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوام کی کمبختی روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ رشوت کے بغیر آپ کسی کام کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کیا ایک مزدور گھر کا بجلی کا میٹر لگوا سکتا ہے؟ ہر چیز میں ملاوٹ، عوام کا جینا حرام ہو گیا ہے۔ ملک کا کوئی نیا نام رکھنا چاہئے۔ اسلام کا نام بدنام نہ کیا جائے نہ مدینہ کی ریاست ہے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان دکھائی دیتا ہے۔ یہ سارا قرضہ صرف چار اداروں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ فوج تو ہماری سرحدوں پر اپنی جانوں کی قربانی بھی دیتی ہے یہی وجہ کہ ہم آرام اور سکون کی نیند سو رہے ہوتے ہیں۔ رات دن ہماری حفاظت کر رہی ہے۔ 
پارلیمنٹ اور پولیس افسروں پر خرچ ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ یہ ملک عوام کیلئے نہیں طاقتور لوگوں کیلئے ہے۔ لوگوں کی فیکٹریاں کئی ماہ سے بند پڑیں ہیں وہ مزدوروں کی تنخواہیں کہاں سے ادا کریں گے؟ آخر کب تک دعاؤں پر کام چلے گا ہر کوئی یہی کہتا ہے ’’دعا کریں ہم کام اچھے کریں یا نہ کریں‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ منافقت نہیں کہ ہم جو وعدہ کرتے ہیں وہ پورا کرتے نہیں جو کہا جائے وہ پورا کریں تب وہ صادق امین ہے۔ جب ہمارے بڑے بڑے سیاست دان بڑی بڑی تقاریر کرتے ہیں اور ہزارں لاکھوں انسانوں سے وعدے کرتے ہیں ان انسانوں کے دلوں میں اس کی عزت نہیں رہتی ہم کیسے امتی ہیں۔ ہم جن کو غیر مسلم کہتے ہیں وہ نہ قرآن پڑھتے نہ حدیث نہ حج نہ نماز نہ روزے نہ بکرے کی قربانی دیتے ہیں قربانی کرنے میں ہم سب سے آگے رہیں۔ عوام سے کوئی نہیں آتا، کسی ایک چھوٹے افسر کے پیچھے کسی بڑے کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ہم نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دے کر یہ ملک حاصل کیا یااللہ یہ کن کے ہاتھوں میں ہم آ گئے ہیں۔ اے اللہ ہم پر رحم فرما جو آتا ہے سارا ملبہ اپنے پیشروؤں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتا ہے۔
اُن کے رشتے دار کوئی فوج میں کوئی ان کا بھائی پولیس میں ہے ان کا عزیز عدالت میں بیٹھا ہوتا ہے کوئی پارلیمنٹ میں بیٹھا ہوتا ہے اُس کو کوئی فرق نہیں پڑھتا اُن کو کون پوچھے گا۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس ہماری دولت تو باہر ہوتی کون سا لیڈر جس کی دولت باہر نہیں ہے یہ ساری کمبختی عوام کی ہے ہمارے لیڈروں نے عوام کے دلوں پر راج نہیں کیا۔ کیا نیلسن منڈیلا   مسلمان تھا ساری دنیا کے لوگ اس کے نام سے واقف ہیں اس کی نیت ٹھیک تھی کیا ہم مسلمان ہیں۔ ؟
ایم این اے، ایم پی اے، منتخب ہونے کے بعد ووٹ لینے کے بعد عوام سے ایسے دور بھاگتے ہیں کوئی شخص ان کو کام نہ کہہ دے نہ فون اٹھاتے ہیں صرف ووٹر کے مرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر اس کو اپنے  طور پر جنت کا ٹکٹ دے کر آتے ہیں۔ 
پاکستان میں کون سرمایہ کاری کرے گا ہمارے پاکستانی جو باہر کے ملکوں میں مقیم ہیں وہ بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں سارا ملک قرضے پر چل رہا ہے لیڈروں کو 22 کروڑ عوام کی کوئی پرواہ نہیں وہ بھوک سے مر رہی ہے اور خودکشیاں کر رہی اور مہنگائی سے مررہی ہے۔ قرضے ڈبل ہو گئے ہیں یہ کس نے دینے ہیں؟ یہ عوام نے ہی دینے ہیں یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟؟ 

ای پیپر دی نیشن