سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
پاکستان انوکھا ملک ہے ،پہلے تو اس ملک میں آئین ہی نہیں بنا اور اس کے بعد جب پہلا ملکی آئین جو کہ 1956ئ کا آئین تھا وجود میں آیا بھی تو اس کے بعد 1958ئ میں Aborgate ہو گیا ،اس کے بعد دوسرا ملکی آئین 1962ئ میں سابق صدر ایوب خان دور میں بنا ایوب خان نے بنایا اور اپنے لیے بنوایا ،اس کے بعد تمام ملکی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرکے شہید ذو الفقار علی بھٹو نے 1973ئ میں ایک متفقہ آئین قوم کو دیا اور اس کامیابی پر بھٹو اور ان کی ٹیم یقینا کریڈیٹ کے حق دار ہیں۔لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس آئین میں اس کے بعد سے حد سے زیادہ کھلو اڑ کیا گیا ہے ،جو کہ بد قسمتی کی بات ہے ایک متفقہ آئین کو آگے لے کر بڑھنے کی ضرورت تھی تاکہ قوم کو متحد رکھا جاسکتا تھا لیکن ہم راہ سے ہٹ گئے اور ہم نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا۔اس وقت ملک میں جو آئین لاگو ہے وہ کہنے کو 73ئ کا آئین ہے کیونکہ مارشل لائ کے ادوار میں اس آئین میں اتنی تبدیلیاں کر دی گئیں ہیں کہ اب یہ اپنی اصل شکل و صورت اور اپنی حقیقی ہیت سے ہٹ چکا ہے۔اس آئین میں مارشل لائ دور کی انٹر وینشن ابھی تک موجود ہے جمہوری حکومتوں نے کچھ شقوں کی خبر گیری تو کی ہے لیکن ابھی تک مارشل لا ئ کی باقیات اس آ ئین میں موجود ہیں۔آئین کا ان سے پاک ہو نا ضروری ہے ،اس وقت ملک میں کئیر ٹیکٹر حکومت کے حوالے سے جو باتیں کی جا رہی ہیں ،وہ بھی آئین میں مارشل لائ کے دور میں ہونے والی آمیزش کا نتیجہ ہے ،الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے اور الیکشن کمیشن اس حوالے سے مکمل طور پر آزاد ہے۔الیکشن کمیشن نے الیکشن کروانے ہیں لیکن تاخیر کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے اور یہ تاخیر اس لیے ہو سکتی ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو مبینہ طور پر الیکشن سے باہر رکھنا ہے اور باقی سیاسی جماعتوں کے درمیان الیکشن ہونا ہے ،لیکن میں یہ کہتا چلوں کہ یہ کسی بھی طور پر مناسب اقدام نہیں ہے۔ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ایک نیشنل کنسنسس یا پھر قومی اتفاق رائے قائم ہونا بہت ہی ضرور ہے اس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔الیکشن میں اس ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ووٹ ڈالنے جاتا ہے اور اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے ،اور عوام سے یہ حق چھینا نہیں جاسکتا ہے ،پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے بنیادی جمہوریت ضروری ہے اس کے بغیر یہ ملک آگے بڑھ نہیں سکتا ہے۔ووٹر ووٹ دینے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہے ،لیکن ہمارے ہاں الیکشن کا عمل کبھی بھی بہت مربوط نہیں رہا ہے ،اور ہمیشہ سے مشکلات کا شکار رہا ہے ،کبھی بھی الیکشن کے مسائل حل نہیں ہوئے ،الیکشن کے نتائج تسلیم نہیں کیے جاتے ہیں ،اور اس حوالے سے میں نہ مانوں کی رٹ لگائی جاتی ہے اس مرتبہ بھی اس طرح کے الیکشن نہیں ہو نے چاہیے۔بہر حال الیکشن کروانا لازمی ہے اور یہی پاکستان کے بحرانوں کا حل ہے ،کچھ اصول طے ہونے چاہیے اور یہ اصول یہ ہو نے چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتیں یہ یقینی بنائیں کہ سیاست میں تشدد نہ ہو تشدد کا راستہ استعمال نہیں ہونا چاہیے۔سیاست اقتدار میں آنے کا ایک پر امن ذریعہ ہے اور اس کو کسی بھی طور پر تشدد نہیں ہونا چاہیے۔الیکشن والے دن بھی بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ،یقینی بنایا جانا چاہیے کہ الیکشن والے دن بھی کو ئی لڑائیاں نہ ہو ں اور سب کچھ پر امن طریقے سے ہو ،کا رکنان گھتم گھتا بھی نہ ہو ں اور مہذب انداز میں معاملات کو ڈیل کیا جائے تب جا کر ہی الیکشن کے نتائج کو بھی تمام جماعتیں تسلیم کریں گی۔صاف شفاف الیکشن ملک کی صحت اور جمہوریت کی بقا کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں اور اس بات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر 1958ئ میں تجویز کردہ الیکشن کروا دیئے جاتے تو 71ئ میں ملک نہ ٹوٹتا ،ہمارا ملک مشکلات کا شکار ہی اسی لیے رہا ہے کہ یہاں جمہور کا راستہ روک کر آمریت نافذ کی گئی ہے۔کاش کہ وہ الیکشن ہو جاتا اور مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ نہ ہوا ہو تا۔بہر حال یہ ایک ماضی کا حصہ ہے اور بہت ہی دکھ بھری داستان ہے ،اس کو دوہرانے کا فائدہ نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں اور اب ہمیں بطور ملک آگے بڑھنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہم ترقی کی دوڑ بہت پیچھے رہتے چلے جا رہے ہیں۔صاف شفاف الیکشن کے نتیجے میں سامنے آنے والے نمائندے ہی عوام کے لیے بہتر کام کرسکتے ہیں ،اس ملک کا اور برا مسئلہ یہ ہے کہ منتخب عوامی نمائندوں کو جن کابنیادی کام قانون سازی کرنا اور حکومت کے لیے پالیسی بنانا ہے وہ پیچھے رہ گیا ہے اور ہمارے ہاں عوامی نمائندے صرف اور صرف ترقیاتی فنڈز کی دوڑ میں پڑے ہوئے ہیں اور اپنا سارا وقت بھی انہی فنڈز کے حصول کے لیے کوشاں رہنے میں گزارتے ہیں۔جب تک کہ یہ قصہ ختم نہیں کیا جاتا ہے تب تک عوامی نمائندے بہتر انداز میں کام نہیں کر سکیں گے۔قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا عوامی نمائندے کی ذمہ داری ہے اور جس کو عوامی نمائندگی ورثے میں مل جا ئے وہ بھی بہتر طور پر کام نہیں کرسکتا ہے ،اس میں سیاسی جماعتوں کا بھی قصور ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں الیکٹیبیل کے گھن چکر سے ہی باہر نہیں آتی ہیں جس کا نتیجہ سیاسی تنزلی کی صورت میں سامنے آتا ہے ،ایک موضوع آدمی جو کہ قانون کی حکمرانی میں یقین رکھتا ہو اور عوام کے لیے کچھ کر دکھانے کے جذبے سے سر شار ہو اس کی تلاش اتنی مشکل نہیں ہونی چاہیے۔