پی ڈی ایم کی جماعتیں نگران وزیراعظم اور وفاقی وزراءکے لیے صلاح مشورے کر رہی ہیں- حکومتی اتحاد کے بڑے لیڈروں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان دبئی میں ملاقات ہوئی- اس ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمان اور ایم کیو ایم کی قیادت نے گلہ کیا کہ ان کو دو بڑوں کے درمیان ملاقات کے سلسلے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا- 75 سال گزر جانے کے باوجود پاکستان میں ابھی تک مستقل اور ٹھوس انتخابی نظام تشکیل نہیں پا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انتخاب سے پہلے انتخابی اصلاحات کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے- پاکستان میں انتخابی تاریخ بڑی دلچسپ ہے-1970 کے انتخابات مارشل لاء انتظامیہ کی زیر نگرانی کرایے گئے-
1977 کے انتخابات بھٹو حکومت نے کروائے جس میں دھاندلی کے الزامات لگائے گئے اور سیاسی جماعتوں نے سوچا کہ انتخابات غیر جانبدار وزیر اعظم کی نگرانی میں ہونے چاہئیں - 1988 کے انتخابات صدر غلام اسحاق خان نے کرائے- 1990 کے انتخابات کے لیے غلام مصطفیٰ جتوئی کو پہلا نگران وزیراعظم نامزد کیا گیا-
1993 کے انتخابات کے لیے میر بلخ شیر مزاری نگران وزیراعظم مقرر ہوئے جن کو ایک ماہ بعد رخصت ہونا پڑا کیونکہ سپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کی حکومت کو بحال کردیا تھا - یہ بحالی بھی عارضی ثابت ہوئی اور 1993 کے انتخابات کے لیے معین قریشی کو نگران وزیراعظم بنایا گیا جن کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ بھی نہیں تھا۔
1996 کے انتخابات کے لیے صدر فاروق لغاری نے ملک معراج خالد کو نگران وزیراعظم مقرر کیا-2002 کے انتخابات جنرل پرویز مشرف نے کرائے- 2008 کے انتخابات کے لیے محمد میاں سومرو نگران وزیراعظم نامزد ہوئے- اٹھارویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت نگران سیٹ اپ کا میکانزم تشکیل دیا گیا- جس کے مطابق طے پایا کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مشاورت کے ساتھ نگران وزیراعظم کا فیصلہ کریں گے- دونوں تین تین نام ایک دوسرے کو دیں گے اگر وہ تین دن کے اندر کسی ایک نام پر متفق نہ ہوسکیں تو دونوں دو دو نام پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کریں گے جس کے چھ ارکان قومی اسمبلی کا سپیکر نامزد کرے گا- جس میں تین حکومتی جماعت اور تین اپوزیشن کے ہوں گے- پارلیمانی کمیٹی اگر کسی ایک نام پر متفق نہ ہو سکے تو معاملہ الیکشن کمیشن کو ریفر کر دیا جائے گا - جو کسی ایک کو نگران وزیراعظم نامزد کرنے کا مجاز ہوگا -
2013 کے انتخابات کے لیے میر ہزار خان کھوسو نگران وزیراعظم نامزد ہوئے جن کو الیکشن کمیشن نے نامزد کیا- 2018 کے انتخابات کے لیے جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک نامزد ہوئے - یہ نامزدگی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے اتفاق رائے سے کی-
عمران خان اور تحریک انصاف کے 140 اراکین اسمبلی اگر سیاسی مہم جوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے استعفے نہ دیتے تو آج پاکستان کی سیاست بہت بہتر حالت میں ہوتی - افسوس سیاسی خلا کی وجہ سے آج راجہ ریاض اپوزیشن لیڈر ہیں جو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر 2023 کے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند ہیں- لوگوں کو دکھانے کے لیے آئینی پراسیس مکمل کیا جائے گا - وزیراعظم شہباز شریف نے یہ پراسیس مکمل کرنے کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے- جبکہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی سے کریں گے-
حکومتی اتحادی جماعتوں کو وفاقی اور صوبائی کابینہ میں نمائندگی دی جائے گی - نیا نگران سیٹ اپ بادی النظر میں پی ٹی آئی مخالف ہوگا- ستمبر کے وسط میں جب نئے چیف جسٹس پاکستان حلف اٹھا لیں گے تو میاں نواز شریف کی باعزت واپسی کے راستے میں تمام رکاوٹیں دور کی جائیں گی- مردم ش±ماری کے مسئلہ پر سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی اور انتخابات مارچ 2024 تک کروائے جاسکیں گے-
نگران سیٹ اپ لمبا چلے گا تاکہ آئی ایم ایف کا پروگرام کسی تعطل کے بغیر مکمل کیا جا سکے اور پی ٹی آئی چیئرمین کے حق میں جذباتی فضا ختم کی جا سکے- باوثوق ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف ایسے افراد بھی سلطانی گواہ بن جائیں گے کہ عوام ششدر رہ جائیں گے-
نگران حکومت کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے- نگران حکومتوں کا تجربہ کامیاب نہیں ہو سکا - 2013 کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے مبینہ دھاندلی کے خلاف 126 دن کا طویل دھرنا دیا - 2018 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی قائد پر" سیلیکٹڈ وزیراعظم" کا الزام لگایا گیا -
بھارت میں سیاسی جمہوری انتخابی نظام مضبوط اور مستحکم ہے جس کا کریڈٹ بھارتی الیکشن کمیشن کو جاتا ہےاور نگران حکومت کی ضرورت نہیں پڑتی - اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے کا فیلر چھوڑا گیا- جسے تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کر دیا- سیاست میں فیصلے "ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور" کے اصول پر کیے جاتے ہیں- باجوڑ میں دہشت گردی کے المناک سانحہ میں 54 افراد جان بحق اور 200 زخمی ہوئے ہیں- اس سانحہ نے پاکستان کے عوام کو سوگوار کر دیا ہے- اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ آپس میں الحاق کر سکتے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے- پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو قومی یک جہتی کے بغیر ممکن نہیں بنایا جاسکتا - پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈر پائیدار امن اور استحکام کے لیے قومی ڈائیلاگ کریں- دہشت گردی کی نئی لہر کے پیش نظر سیاسی اجتماعات کھلے میدانوں کی بجائے چار دیواری کے اندر کیے جائیں تا کہ شہریوں کی جانوں کو دہشت گردوں سے محفوظ بنایا جا سکے-سیکورٹی فورسز باقی کام چھوڑ کر سیکورٹی پر فوکس کریں-
٭....٭....٭