دبئی سے لندن

ویٹنگ ہال سے جب جہاز میں بیٹھنے کا وقت آیا تو تمام مسافربھاگم بھاگ ایک دوسرے سے پہلے جہاز میں جانا چاہتے تھے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میرے ساتھ میری دونوں بیٹیاں بھی تھیں اور ہینڈکیری بھی ضروری تھا جس کی وجہ سے میں کافی پریشان تھا۔بیٹی صاحبہ گود سے نیچے اترنے کو تیار نہیں تھی لہٰذا وہاں پر موجود جہاز کے عملے سے درخواست کی کہ میرا ہینڈکیری بھی جمع کر لیں۔ عملے کا رویہ بہت ہمدردانہ تھا انہوں نے میرے ساتھ تعاون کیا اور ہینڈکیری جمع کرکے سلپ مجھے پکڑا دی جس کے بعد میری کچھ پریشانی حل ہوئی لیکن یہ کیا! اب مومل فاروق رانارش کی وجہ سے پریشان ہوکر رونا شروع ہو گئی۔ جیسے ہی میں جہاز میں پہنچا تو جہاز کا عملہ ر ونے کی آواز سن کر فوراََمیرے پاس آیا۔ چند ہی لمحوں میں ائرہوسٹس دونوں بچوں کو چپ کروا نے میں کامیاب ہو گئی۔اس نے بچوں کیلئے مختلف قسم کے کھلونے اور کھانے پینے کی چیزوں کا ڈھیر لگا دیا اور بچے فوراََ کھیلنے میں مصروف ہو گئے۔ جیسے ہی جہاز نے پرواز کیلئے اڑان بھرناشروع کی تو لاہور میں آذان فجر کا وقت ہو گیا تھا۔یہ میری زندگی کا پہلا فضائی سفر تھا۔ میں بچوں کی وجہ سے پریشان تھا کہ اتنے لمبے سفر میں اکتاہٹ محسوس نہ کرنا شروع کر دیں لیکن اللہ پاک کا شکر کہ بچے سنبھل گئے۔ چونکہ میری شریک ِحیات ہم سے پہلے لندن پہنچ چکی تھیں اس لیے بچوں کو سنبھالتے ہوئے مجھے ماﺅں کی اہمیت پہلے سے زیادہ سمجھ آئی۔ خیر بچے کھیلتے کھیلتے سو گئے۔ تین گھنٹے سفر کے بعد ہم دبئی پہنچ گئے۔
جیسے ہی ہم جہاز سے باہر آئے تو ایک نئی دنیا دیکھنے کو مِلی۔پوری دنیا کے لوگ مختلف قسم کے لباس میں ملبوس اپنی مصروفیات میں گم تھے۔قابلِ تعریف بات یہ کہ ایک مکمل نظم و ضبط نظر آرہا تھا۔ہر کوئی قانون پر عمل کرتا نظر آرہاتھا۔ایئر پورٹ کم ایک پورا آباد شہر لگ رہا تھا ،مختلف قسم کے برانڈز کی ڈیوٹی فری دوکانیں تھیں جہاں لوگ خریداری کرنے میں مصروف تھے۔ باہر بلند و بالا عمارتیں نظر آرہی تھیں جنہیں ہم پہلے ویڈیو اور تصویروں میں دیکھتے تھے، اب باہر شیشے سے نظر آرہی تھی۔ایئر پورٹ پر بہت رش تھا میری اگلی فلائٹ کیلئے مجھے B-10 ٹرمینل سے جانا تھا وہاں تک پہنچنے کیلئے مجھے کافی پیدل چلنا پڑا۔جب B-10 ٹرمینل پہنچا تو لندن جانے والی فلائٹ کے مسافر انتظار میں تھے اور امل اور مومل مسلسل مجھے یہ کہہ رہی تھیں بابا ہم نے سونا ہے نیند آرہی ہے۔ مجھے خود بھی تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی۔ اگلی فلائٹ کی بورڈنگ جیسے ہی شروع ہوئی تو ہر کوئی ترتیب کے ساتھ اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ لاہور ایئر پورٹ کی نسبت یہاں پر نظم و ضبط واضح نظر آ رہا تھا۔ بورڈنگ کروانے کے بعد ہم بہت آرام سے جہاز میں پہنچے تو اگلا سفر چھ گھنٹے کا تھا جو تھکا دینے والا تھا۔
جہاز کے شیشوں سے دیکھا تو بہت سارے ممالک کی فلائٹس پرواز بھرنے کو تیار تھیں۔بچوں کے معاملے میں دبئی سے لندن والا عملہ بھی بہت تعاون کرنیوالا تھا ،تمام مسافروں سے نہایت نرمی اورمحبت سے پیش آرہا تھا۔میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک پاکستانی فیملی بیٹھی تھی جو امل اور مومل کے ساتھ بہت محبت سے پیش آرہے تھے اور بار بار اپنے پاس بلا کر پیار کر رہے تھے۔جلد ہی امل اور مومل نیند کی وادی میں چلی گئیں۔جب بچے سو گئے تومیرے ساتھ بیٹھے صاحب اور میرے درمیان گفتگو شروع ہو گئی۔ انہوں نے مجھ سے میری منزل کاپوچھا تو میں نے بتایا کہ میں پہلی بار لندن جارہا ہوں۔ انہوں نے میری پاکستان میں مصروفیت اور مشغلے کا پوچھا تو میں نے بڑے فخر سے اپنا اور صحافت کا گہرا تعلق بتایااور اِسے کبھی نہ چھوڑنے کے عزم کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔ جب میں نے ان سے پاکستان میں انکی رہائش اور مصروفیت کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستان میں اپنا کاروبارکرتے ہیں لیکن اب اپنا کاروبار آئرلینڈ شفٹ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ انکے یہ الفاظ میرے لیے بہت تکلیف دہ تھے۔میں نے معذرات خوانہ انداز اپناتے ہوئے انکے اِس فیصلے کی تفصیل جاننا چاہی تو انکا جواب بالکل میری سوچ کی عکاسی کر رہا تھا۔ میں یقین سے لکھ سکتا ہوں کہ میرے قارئین بھی جواب جانتے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا یار رانا صاحب پاکستان میں اب کوئی سیکیورٹی نہیں ہے۔ ناتو وہاں کی بیوروکسی کوئی کا م کرنے دیتی ہے اور نا ہی حکومت۔ ان صاحب کا کہنا تھا پچھلے ایک سال میں مجھے ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔ ہم کب تک اپنے پاس سے لوگوں کو تنخواہیں دیتے۔ان کا مزید کہناتھا کہ میرے پاکستان میں بہت سے کولیگ ہیں جو دیوالیہ ہو چکے ہیں اور باقی دوست جو بچ گئے تھے وہ بھی اپنا سرمایہ نکال کر بیرونِ ملک شفٹ کر چکے ہیں۔ان صاحب کی باتوں میں اتنی مایوسی اور درد تھا کہ میں اپنا ملک چھوڑنے کی پریشانی کو ایک دم بھول گیا اورمجھے محسوس ہوا کہ شاید میرا فیصلہ بھی ٹھیک ہے۔میں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور دِل میں سوچا کہ یہ بندہ بھی سو جائے ، یہ نا ہو میں اسکی باتوں سے اور زیادہ مایوس ہوجاﺅں۔ میری آنکھیں تو بند تھی لیکن نیند کوسوں دور تھی۔ دِل اتنا بے چین تھا کہ خون کے آنسو رو رہا تھا۔ اِن صاحب کی ایک ایک بات میں بہت وزن تھا کہ پاکستان اب صرف پراپرٹی ڈیلروں کیلئے جنت ہے۔وہ ممالک بہت پیچھے چلے جاتے ہیں جن میں لوگ فیکٹری چھوڑ کر پراپرٹی ڈیلر بن جائیں۔ایک پراپرٹی ڈیلر کے لئے بیوروکریسی سے کام کروانا کوئی مشکل نہیں کیونکہ جب وہ اپنی سوسائٹی سے چار کنال کا پلاٹ کسی آفیسر کو دے دے گا پھر گرین ایریا بھی برا?ن ہو جائےگا۔ یہاں میں اپنے چاہنے والوں کو وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مقصد پاکستان کے بارے میں مایوسی پھیلانا ہرگز نہیں ہے۔یہ ایک کڑوی حقیقت ہے جسے نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا پڑتا ہے۔ ایسے حالات محبِ وطن پاکستانیوں کی اپنے ملک سے محبت کم نہیں کر سکتے۔یہ تلخ باتیں حکومتوں کی اچھی اور بری کارکردگی کے بارے میں لکھی جاتی ہیں نہ کہ پاکستان کی منفی تصویر پیش کرنے کے لئے۔خیر ابھی آنکھیں بند کرکے اس صاحب کی باتوں کو بھولنے کی کوشش کرہی رہا تھا کہ جہاز میں اناﺅنسمنٹ ہوگئی کہ ہم چالیس منٹ بعد سٹنسڈیڈائر پورٹ پر لینڈ کر ینگے۔ جب میں نے بچوں کی طرف دیکھا تو وہ ابھی تک سو رہے تھے سوچا اب اِن کو آہستہ آہستہ نیند سے اٹھاﺅں تاکہ ہمارے لینڈ کرنے تک وہ مکمل ہشاش بشاش ہو جائیں۔ اب ہم لندن لینڈ کرچکے تھے اور سب اپنی باری میں جہاز سے باہر آرہے تھے۔ امل فاروق رانا اور مومل فاروق رانا تو اب اپنی ماں سے ملنے کو بے تاب تھیں۔وہ بار بار یہی سوال کئے جارہی تھی کہ مما کہاں ہیں ابھی تک آئی کیوں نہیں۔ ہم امیگریشن سے فارغ ہوکر جب باہر نکلے تورانا سہیل منظور اور مسز انتظار میں کھڑے تھے۔ دونوں بیٹیاں اپنی ماں کو مل کر ایک قابلِ تعریف اور جذباتی منظر پیش کر رہی تھیں۔آج وہ ایک ماہ اور دس دن بعد اپنی ماں سے ملی تھیں۔ دونوں اپنی ماں سے لپٹ کر اسے چھوڑنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔(جاری)

ای پیپر دی نیشن