جہاد کی دو اقسام ہیں۔ ایک جہاد ظاہری جو مشرکوں اور بد دینوں کے ساتھ جنگ کا نام ہے اور جس کا مقصد یہ ہے کہ جنگ کے فتنے اور فساد کو مٹا کر ماحول کو سنوارا جائے۔ دوسرا جہاد باطنی ہے جو نفس امارہ اور خواہشات کے خلاف ہو تا ہے جس کو ”جہاد اکبر" کہا جاتا ہے۔ جب رسول پاک ﷺ جنگ تبوک سے واپس آئے تو صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیھم اجمعین کو باطنی میدان ِ کارزار کی طرف خصوصیت سے متوجہ فرمایا اور مجاہدئہ نفس کے ذریعے ان کو روحانی بلندی اور اصل مقصد کی طرف رجوع کرنے کے لیے فرمایا کہ :” ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہادکی طرف لوٹے"۔
حضور ﷺنے نفس و شیطان کو مجاہدے کے ذریعے زیر کرنے اور روح کو اوج کمال پر پہنچانے کے لیے بڑی تاکید فرمائی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ :” تیرا سب سے بڑا دشمن نفس ہے جو تیرے دونوں پہلو ﺅ ں کے درمیان ہے “۔اے مسلمانو ! تم کو چاہیے کہ اپنے نفس و شیطان کیخلاف جو تمہارے پوشیدہ اور بد ترین دشمن ہیں مجاہدہ کرتے ہوئے طریقت کی منازل طے کر کے بحر توحید میں محو مستغرق ہو جاﺅ۔ جب تم ہمت،شوق اور خلوص سے مجاہدہ بالنفس کے میدان میں قدم بڑھاﺅگے تو اللہ کا وعدہ ہے وہ تمہیں نواز دے گا۔
ارشاد باری تعالی ہے :” جو لوگ ہمارے بارے میں مجا ہد ہ کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستے ضرور دکھاتے ہیں۔ تحقیق اللہ بطریقہ احسان عبادت کرنے والوں کے ساتھ ہے “۔ (سورة العنکبوت)۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے مجاہدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے اور مدد کرنے کا اظہار فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ” جن لوگوں نے اللہ کے لیے ہجرت کی “۔ (سورة النحل )۔
اس آیت میں ہر طرح کی ہجرت ، ہجرت فی سبیل اللہ ، ہجرت فی دین اللہ ، ہجرت فی امر اللہ اور ہجرت فی حب اللہ سب شامل ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ :”مہاجر وہ ہے جس نے ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیا ہو جن سے اللہ تعالی نے منع فرمایاہے۔
والذین جاھدوافینا سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ راہ الہی میں نفس اور شیطان کے خلاف جہاد کرتے ہیں انہیں بلحاظ نیت ، ظاہری فتح و ظفر اور دولت لقا ءالرحمن تک پہنچانے کی راہیں دکھا دی جاتی ہیں۔سچا طالب حق تکلیف و آرام ، بلاءاور مصیبت غرضیکہ ہر آزمائش میں ، جس سے مخلص اور غیر مخلص میں امتیاز ہوتا ہے ، نفس اور شیطان سے بچ کر حق سے وابستہ رہتا اور دل کی پ±ر محبت زبان سے بار گاہ ذرہ نواز میں رحم و کرم کی التجائیں کیے جاتا ہے۔