مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا یوم ولادت عقیدت و احترام سے منایا گیا
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ جوہر سفر و خضر میں اپنے عظیم بھاءکے ہم قدم شانہ بشانہ شامل رہی، جنہوں نے تحریک پاکستان کے پرآشوب اور اس کے بعد قیام پاکستان کے ابتدائی مشکل دور میں جس استقامت کامظاہرہ کیا عوام کی رہنمائی کی وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے ایک خاتون ہونے کے سبب اپنے بھائی کے گھر کو سنبھالا۔ ساری عمر شادی نہیں کی۔ اپنی زندگی برصغیر کے مسلمانوں کے اس عظیم قائد کی خدمت میں صرف کی۔ بابائے قوم کو بھی اپنی بہن سے بہت محبت تھی۔ جبھی تو دم رخصت ان کے لبوں پر انہی کا نام تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اپنے بھائی کے غم میں کچھ عرصہ گوشہ نشین رہیں۔ مگر جلد ہی طالع آزما سیاستدانوں کی بازی گری دیکھ کر محب وطن عناصر انہیں سیاست کی مانگ سنوارنے کے میدان عمل میں لے آئے۔ مشرقی و مغربی پاکستان میں عوام کی اکثریت نے انہیں مادر ملت کاخطاب دے کر مفاد پرست سیاستدانوں کے چھکے چھڑا دئیے۔ پوری قوم ان کے ساتھ تھی۔ مگر مفاد پرست سیاستدانوں نے قدم قدم پر ان کی راہ روکی انہیں کیا کچھ نہیں کہا۔ مشرقی پاکستان میں ان کی مقبولیت کے سامنے کوئی ٹک نہیں سکا، مغربی پاکستان کے عوام بھی ان کے شیدائی تھے۔ مگر جلد ہی لولی لنگڑی جمہوریت رخصت ہوئی اور مارشل کا آسیب ملک پر چھایا تو مادر ملت نے اسے بھی للکارا جب بڑے بڑے نواب، خان، چودھری، شاہ ، وڈیرے اور سردار آمر کی جوتیاں سیدھی کرتے تھے۔ مادر ملت عوام کی ترجمانی کرتی رہیں۔ آمر کے مقابلے میں صدارتی الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا۔ مگر تقدیر کا لکھا کون ٹال سکتا۔ مقابلے سے پہلے ہی وہ کروڑوں پاکستانیوں کو روتا چھوڑ کر رخصت ہو گئیں۔ گزشتہ روز قوم نے ان کا یوم پیدائش جذبے سے منا کر ثابت کیا کہ وہ ان کی قربانیوں اور سیاسی جدوجہد کو نہیں بھولے۔
٭٭٭٭٭
لاہور بورڈ نے میٹرک کے نتائج کا اعلان کر دیا،74.6 فی صد طلبہ پاس
بڑے عرصے بعد لاہور میں میٹرک کے امتحان میں طلبہ و طالبات کی اتنی بڑی تعداد کامیاب ہوئی ہے۔ ورنہ عام طور پر یہ شرح 45 تا 50 کے درمیان ہی معلق رہتی تھی۔ گوجرانوالہ نے تو لاہور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جہاں شرح 80 فیصد سے زیادہ رہی۔ ایک حساب سے تو یہ حوصلہ افزا بات ہے کہ ہمارے صوبے میں تعلیمی کامیابی کا شرح بڑھ رہی ہے۔ بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا ہو رہا ہے۔ خواندگی کی شرح بھی اسی حساب سے بہتر ہو گی۔ مگر ایک بات پریشان بھی کر رہی ہے۔ کہ جس نوجوان کو دیکھو کتابوں سے زیادہ اسے موبائل فون عزیز ہوتا ہے۔ قلم و کتاب کی جگہ ہر وقت ان کے ہاتھ میں موبائل ہوتا ہے۔ پہلے صرف آوارہ گردی کا غم والدین کو کھائے جاتا تھا اب موبائل نے والدین کی نیند اڑا رکھی ہے۔ اس کے باوجود یہ شرح کامیابی حیران کن ہے۔ کہیں یہ سب نجی تعلیمی اداروں کی کرشمہ سازی کے سبب تو نہیں ہو رہا۔ ہمارے تمام نجی تعلیمی ادارے صرف اور صرف اپنا تعلیمی ریکارڈ بہتر بنانے کے لیے تھوک کے حساب سے دھڑا دھڑ اپنے ادارے میں زیر تعلیم بچوں کو ہر جائز و ناجائز طریقے سے پاس کرانے کے تمام حربے استعمال کرتے ہیں۔ بڑے بڑے نامور سکولوں میں صرف امتحانی سوالات دو سال رٹائے جاتے ہیں۔ کتابیں گئیں چولہے میں علم گیا بھاڑ میں۔ بچوں کا سارا زور گیس پیپر، خلاصے اور ٹیسٹ پیپر پر لگایا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا سرکاری سکول اپنے تعلیمی معیار اور شاندار رزلٹ کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ انہیں جان بوجھ بھولی بسری داستان بنا دیا گیا۔ بڑے بڑے عالی شان سکولوں میں ا±لو بولتے ہیں۔ چند مرلے والے گھروں میں قائم نجی سکولوں میں رونق لگی رہتی ہے۔ یہ نجی سکول اندرون خانہ بورڈ والوں سے ملے ہوتے ہیں اور بھاری نذرانے دے کر اپنے بچوں کو نمبر دلواتے ہیں۔ اس کے برعکس سرکاری سکولوں کے اساتذہ دفتری سیاست، چھٹیوں، ٹیوشن اور تنخواہوں میں اضافے کے چکروں میں پڑے رہتے ہیں۔تعلیم پر توجہ کون دے۔
٭٭٭٭٭
وحشیانہ میڈیا ٹرائل سے تو بہتر ہے ہمیں ذبح کیا جائے۔ جج
اگر یہ بات وحشیانہ تشدد سے پہلے سوچی ہوتی تو آج یہ سب کچھ کہنے کی نوبت نہ آتی۔ میڈیا کا ٹرائل آج جنہیں وحشیانہ لگ رہا ہے انہوں نے خود کونسا مہربانہ سلوک کیا،ایک کم عمر ملازمہ سے۔ ایسا تو نازی کیمپوں میں جرمن فوجی اپنے زیر حراست قیدیوں سے کرتے تھے۔ مذکورہ جج صاحب کو تو خوش ہونا چاہیے کہ تمام میڈیا ٹرائل کے باوجود عوام کی طرف سے انصاف کرنے کے مطالبے کے باوجود ابھی تک وہ اور ان کی اہلیہ ضمانت پر باہر ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو کم از کم اس وقت حوالات کی سیر کر رہا ہوتا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم اتنے سنگدل ہو چکے ہیں کہ اپنے گھر میں کسی ملازم کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر بات بھی نہیں کرتے ۔کرنے والے کا ہاتھ بھی نہیں روکتے۔ اگر یہ پورا واقعہ درست ہے تو پھر سزا ملنی چاہیے ہر اس شخص کو جو اس ظلم میں شریک تھا۔ آخر کب تک ہمارے ہاں گھریلو کم عمر ملازمین کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا۔ ابھی تو صرف ذہنی دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا تو آپ چیخ اٹھے۔ جس پر جسمانی تشدد ہوتا ہے اسے تو رونے کی بھی شاید اجازت نہیں دی جاتی ہو گی۔ چیخنا تو دور کی بات ہے۔ اب عدالت سے ہو یا حکومت سے کم عمر بچوں سے جبری مشقت کے قانون پر عملدرآمد سختی سے کروایا جائے جو عمل نہ کرے خواہ دکاندار ہو یا کارخانے دار گھر والا ہو یا ہوٹل والا اسے کڑی سزا دی جائے اور بھاری جرمانہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایسے بچوں کے والدین کو بھی چند ہزار روپے کے لالچ میں اپنے بچوں کو غلامی کی دنیا میں دھکیلنے پر مستوجب سزا قرار دیا جائے۔ غریبوں کو یہ جو امدادی رقوم دی جاتی ہے ماہانہ ، یہ سیاسی سفارشی بنیاد پر نہیں حقیقی مستحقین میں تقسیم کر کے بھی ہم چائلڈ لیبر پر قابو پا سکتے ہیں اور ہر بچے کے لیے سرکاری سطح پر مفت تعلیم کو سختی سے نافذ کیا جائے جو والدین اس کے باوجود بچوں کو سکول نہ بھیجیں تو انہیں مرغا بنا کر سزا دی جائے۔
٭٭٭٭٭
نجی سیکٹر میں روس سے گندم سے بھرا جہاز کراچی پہنچ گیا
اب اس بحری جہاز کے آنے سے خدا کر ے گندم کی قیمت کم ہو تاکہ غریبوں کو سستی روٹی میسر ہو سکے۔ اس وقت 20 روپے کی چپاتی جیسی روٹی مل رہی ہے جو اصل روٹی کے وزن سے آدھا کم وزن والی ہوتی ہے۔ نان تو 30 روپے کا ملتا ہے وہ بھی کم وزن ہوتا ہے۔ فلور ملز والے ،آڑھتی، دکاندار ، تنور والے یہ سب مل کر گندم کے بحران کو حل کرنے کی کوشش کی بجائے اسے مزید بڑھانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں تاکہ انہیں منافع حاصل ہو۔ اب ان ظالموں سے کوئی پوچھے تو جناب اگر لوگ ہی نہ رہے بھوکے مر جائیں تو یہ گندم کون خریدے گا۔ مگر یہ ظالم جانتے ہیں نقصان میں وہ تب بھی نہیں رہیں گے اور ساری گندم بیرون ملک فروخت کریں گے اور اپنے دام کھرے کریں گے۔ اب اگر نجی سیکٹر میں آنے والے اس گندم سے بھرے جہاز کی وجہ سے آٹا سستا ہوتا ہے تو پھر ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ روس سے ملے یا کسی اور ملک سے۔ گندم کے علاوہ چینی، چاول ، سبزیا ں، پھلوں، مرغیوں، بکروں اور گائے کے ساتھ ہر وہ چیز منگوائے جن کی قیمتیں اس وقت ہمارے مقامی تاجروں، صنعتکاروں، دکانداروں کی وجہ سے آسمان کو چھو رہی ہیں۔ جب گھر میں سب کچھ ہونے کے بعد بھی گھر والوں کو کچھ میسر نہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ حکومت باہر سے سب کچھ منگوائے۔ روس ویسے بھی تو افریقی ملکوں کو مفت گندم دے رہا ہے اس سے ہی درخواست کریں کہ ہم سے زیادہ مفلوک الحال کون ہو گا۔ مانگنا ویسے بھی ہمارے لیے عیب تو رہا نہیں۔ منگتے کے طور پر ہم مشہور ہیں ہی۔ حکومت کا فرض ہے کہ بیرون ملک سے امرا کے استعمال میں آنے والی ہر چیز منگوانے پر پابندی لگا دے۔ الیکشن آ رہے ہیں اس لیے غریبوں پر توجہ فوکس کی جائے ووٹ انہوں نے ہی لائن میں لگ کر ڈالنا ہے۔ ایک بجے سو کر اٹھنے والوں نے نہیں۔
٭٭٭٭٭