حکومت نے جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ کردیا۔ 20 روپے اضافے کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 273 روپے 40 پیسے فی لٹر ہو گئی۔
حکومت کے اس اقدام سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے عوامی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں۔ انتخابات کی آمد آمد ہے‘ ایسے میں ہر حکومت کی پالیسی ہوتی ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے تاکہ اگلے اقتدار کی راہ ہموار کی جا سکے۔ مگر اتحادی حکومت نہ جانے کس پالیسی پر گامزن ہے۔ بے شک آئی ایم ایف کو مطمئن کرنا اور اسکی شرائط پوری کرنا اسکی مجبوری ہے مگر اسکی قیمت غریب عوام کی اقتصادی موت ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ بدترین مہنگائی کی وجہ سے عوام پہلے ہی اتحادی حکومت سے نالاں ہیں اور انتخابات کے موقع پر اس سے حساب چکتا کرنے کا تہیہ بھی کئے بیٹھے ہیں۔ ایک طرف سٹیٹ بنک کی طرف سے معاشی استحکام کو تسلی بخش قرار دیا جا رہا ہے اور مہنگائی میں کمی کی توقع کی جارہی ہے جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی قوم کو نوید سنا رہے ہیں کہ پاکستان کے معاشی اشاریے بہتری کی جانب گامزن ہیں، یقین ہے پاکستان کی معیشت جلد مستحکم ہوجائیگی۔ اب استحکام سے گروتھ کا سفر شروع کردیا ہے، عالمی ایجنسی نے بھی ملک کی ریٹنگ کو بڑھا دیا ہے تو پھر حکومت کو ایسی کیا مجبوری لاحق ہوئی کہ اس نے مہنگائی کا سبب بننے والی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ کرکے مہنگائی میں کمی کی توقعات پر پانی پھیر دیا۔ ایسے میں عوام حکومتی دعوﺅں پر کیسے یقین کر سکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بدترین مہنگائی کی وجہ سے عوام میں اپنی مقبولیت کے تیزی سے گرتے گراف کو حکومت بہتر کرتی ‘ انتخابی پالیسی کے تحت ہی سہی‘ انہیں ریلیف دینے کا تھوڑا بہت اہتمام کرتی مگر اس نے جاتے جاتے عوام کو زندہ درگور کرنے کا ایک اور اہتمام کر ڈالا اور آنیوالی نئی حکومت کیلئے بھی مشکلات کھڑی کر دیں۔ اس اقدام کے بعد اتحادی حکومت کو انتخابی مہم کے دوران عوام کے شدید ردعمل کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔