محمد مدثر
دنیا کی ترقی یافتہ ممالک آج اس مقام پر اس لئے ہیں کہ انہوں یہ جلد بھانپ لیا تھا کہ فنی تعلیم و تربیت ان کے نوجوانوں کو اپنے پائوں پر کھڑا رکھنے میں مددرگار ہو گی اور ساتھ ہی ملکی معیشت بھی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائے گی۔فنی تربیت کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاتا ہے کہ کئی ممالک ایسے ہیں جہاں آپ کتنے بھی کامیاب بزنس مین ہیں ڈاکٹر ہیں انجئیر ہیں لیکن آپ کو سکینڈ ڈیفنس لائن کے طور ایک سکل سیکھنا لازمی ہے۔
پنجاب میں ٹیوٹا چار سو زائد اداروں میں فنی اور ووکیشنل تربیت فراہم کر رہا ہے۔پچھلے کچھ ہفتوں میں ایسی خبریں نظروں سے گزریں کہ جیسے ٹیکنکل ایجوکیشن کی باگ ڈور پنجاب کی حد تک کسی وژنری شخصیت کے پاس ہے۔ایک سینئر بیورو کریٹ احسان بھٹہ ان دنوں سیکرٹری انڈسٹریز ہیں اور ساتھ ہی وہ ٹیوٹا کے چئیرمین بھی ہیں۔
لٹن روڈ لاہورمیںٹیوٹا کا ایک کالج ہے۔ جس میں خواتین فنی تعلیم حاصل کرتی ہیں۔احسان بھٹہ نے وہاں کا وزٹ کیا تو ایک تاریخی عمارت جو شادی لال بلڈنگ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اسے چند دنوں میں پورے ملک کے سامنے لاکھڑا کیا۔یہ تاریخی عمارت شادی لال بلڈنگ جہاں غازی علم دین شہید کیس کا ٹرائل ہوا۔ وہ ایک کمرے میں قید بھی رہے۔اس بلڈنگ کو لائٹس لگا اس طرح دنیا کے سامنے رکھا گیا کہ اب ٹورسٹ بس بھی ہفتے میں ایک یا دو چھٹیوں والے دن وہاں ٹورسٹ کو لے کر آتی ہے۔وہ لڑکیوں کا کالج ہے شاید اس لئے ٹورسٹ بس چھٹی والے دن آتی ہے۔وہاں تارِیخی ہال میں سیکرٹری انڈسٹریز احسان بھٹہ نے بہت سے اعلی سطحی اجلاس بھی کئے۔
اب اہم نقطہ یہ ہے کہ لاہور میں ایک اور تاریخی عمارت کو ریسٹور کیا جائے گا۔یہ سیاحت کے فروغ میں اہم ہو گی۔لیکن یہ قدم فنی تعلیم کے فروغ میں بھی ایسا کردار ادا کرے جس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔یہ بلڈنگ لاکھوں لوگوں تک یہ پیغام بھی پہنچائے گی کہ یہ پنجاب حکومت کا خواتین کو فنی اور ووکیشنل تربیت فراہم کرنے والا سٹیٹ آف دی آرٹ کالج ہے اور ایسے اور بہت سے کالجز پنجاب بھر میں اپنی خواتین کو فنی تربیت فراہم کرنے کے لئے موجود ہیں۔یہاں بہت سی طالبات زیر تربیت ہیں بہت سی اپنی فیملیز کے لئے مضبوط معاشی سہارہ بن چکی ہیں۔فنی تعلیم کے فروغ کا پہلا قدم یہ پیغام ہے جو گھر گھر تک جانا چاہئے کہ اس ذریعہ تعلیم کو ترجیح دیں۔دنیا بھر میں 80 فی صد لوگ بلیو کالر جاب کرتے ہیں۔یہ پراِئڈ ہے نہ کہ آپ کو کہیں داخلہ نہ ملے اور آپ مجبورا فنی تعلیم کو اپنائیں ۔احسان بھٹہ نے چند اور بھی ایسے کام کئے جن کے نتائج نظر آئیں گے۔دو تین دھائیاں پہلے بسوں میں سفر کرنے والوں کو یاد ہو گا ایک شخص دال بیچنے کے لیے بس میں آتا تھا وہ دال کی اتنی تعریفیں کرتا تھا کہ اس میں بارہ مثالے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن شاید ہی کوئی خریدتا ہو۔لیکن وہ پھر سب کے ہاتھوں میں تین چار دانے دال مفت میں رکھتا تھا اور پھر لوگ اسے کھانے کے بعد خریدنے کے طرف مائل ہوتے تھے۔احسان بھٹہ نے دو کا م ایسے کئے ایک سمر سکل کیمپ جس کی تفصیل کچھ ایسے ہے کہ دیگر دو ڈیپارٹمنٹس سکو ل ایجوکیشن اور ہائر ایجوکیشن کے ساتھ مل کر ٹیوٹا کے اداروں میں سر کاری سکول کے بچوں کو جو گرمیوں کی چھٹیوں میں فارغ تھے ان کے لئے پنجاب کے دس ڈویژنل ہیڈکواٹرز میں مفت کورسز کا آغاز کیا۔جو کامیابی سے جاری ہے۔بچے یہ کورس کر رہے ہیں وہ یہ دال چکھ کر ضرور خریدیں گے اور فنی تعلیم کو اپنا مستقبل بنائیں گے۔اسی طرز پر کچھ ماہانہ فیس کے ساتھ بوٹ کیمپس کا اجراء کیا گیا جو سب تحصیلوں میں جاری ہے۔
فنی تعلیم کے فروغ میں ایک وژنری شخصیت نے اسے عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق لاکھڑا کیا ہے۔پہلا قدم یہ ہی ہے کہ فنی تعلیم کو طلباء کی پہلی ترجیح بنایا جائے۔احسان بھٹہ نے ٹیوٹا کے اداروں میں بچوں کے لئے سپورٹس ڈے ہر ماہ منعقد کروانے کا آغاز کیا ہے اور ٹیوٹا کے ٹریننگ سنٹرز میں بھی دوسرے اداروں کے لیے ٹریننگ پروگرامز کا آغاز کیا ہے جو زبردست قدم ہیں یہ چند قدم جوتحریر کئے ہیں اور بہت سے ایسے جو نہیں لکھے جا سکے اہم نتائج دیں گے۔کیونکہ ہنر مند بے روز گار نہیں رہتا۔