سپریم کورٹ میں سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا معاملہ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق محفوظ فیصلہ سنا دیا۔وفاقی حکومت اور سول سوسائٹی کی جانب سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے آج محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی ۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ فل کورٹ کے لیے ججز دستیاب نہیں،ستمبر سے پہلے فل کورٹ بنانا ممکن نہیں۔عدالتی چھٹیاں چل رہی ہیں، تمام ججز کی نجی مصروفیات بھی ہیں جو اس کیس کی وجہ سے معطل ہیں۔ہم نے فل کورٹ کی تشکیل پر مشاورت کی ہے۔ دو مواقعوں پر پہلے دیگر بینچز معطل کرکے فل کورٹ بنائی۔ اس وقت جو کچھ ہورہا ہے تاریخ سب دیکھ رہی ہے، ہم اپنا کام جاری رکھیں گے کوئی پسند کرے یا نہ کرے، ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کریں گے، ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں تاریخ پر چھوڑتے ہیں، ہمیں تنقید کی کوئی پرواہ نہیں۔ہمیں اللہ کے سوا کسی کی مدد نہیں چاہیئے گذشتہ روز سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہمارے سامنے فیصل صدیقی کی فل کورٹ کیلئے درخواست ہے۔ایک درخواست خواجہ احمد حسین کی بھی ہے۔ وکیل جواد ایس خواجہ نے کہا کہ میرے موکل چاہتے ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ چیف جسٹس نہ لگایا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم اسی وجہ سے ان کی عزت کرتے ہیں۔
فیصل صدیقی کے آنے تک خواجہ احمد حسین کو سن لیتے ہیں۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فوج کی تحویل میں موجود 102 افراد کی فہرست سپریم میں پیش کردی ۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ زیر حراست سات ملزمان جی ایچ کیو حملے میں ملوث ہیں۔ تین ملزمان نے آرمی انسٹیٹیوٹ پر حملہ کیا، ستائیس ملزمان نے کور کمانڈر ہاوس لاہور میں حملہ کیا، چار ملزمان ملتان، دس ملزمان گوجرانوالہ گریژن حملے میں ملوث ہیں،آٹھ ملزمان آئی ایس آئی آفس فیصل آباد، پانچ ملزمان پی ایف بیس میانوالی حملے میں ملوث ہیں، اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ چودہ ملزمان چکدرہ محلے میں ملوث ہیں،سات ملزمان نے پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان میں حملہ کیا۔
تین ملزمان ایبٹ آباد، دس ملزمان بنوں گریژن حملے میں ملوث ہیں۔ زیر حراست ملزمان کی گرفتاری سی سی ٹی وی کمیرے اوردیگر شواہد کی بنیاد پر کی گئی۔ دورانِ سماعت جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دئیے کہ کس بنیاد پر 102 ملزمان کا انتخاب کیا گیا؟ حملہ کرنے والے ہر شخص کی ویڈیو تو نہیں بنی تھی، ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف انہی چند لوگوں نے حملہ کیا ہو، آپ شاید کوئی نئی عدالتی مثال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں،بظاہر لگتا ہے ملزمان کے خلاف مواد کے نام ہر صرف فوٹو گراف ہیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ ایسا لگتا ہے آپ سوالات ہر پوری طرح تیار نہیں۔ جسٹس یحیحی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا کسی ملزم کو انکوائری میں بے گناہ ہونے پر سویلینز کا واپس کیا گیا ہے؟۔اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بتایا کہ تمام 102 افراد کی حوالگی مانگی گئی تھی جو مل گئی، کسی کو واپس نہیں کیا گیا۔جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دئیے کہ کیا ملزمان کے خلاف صرف تصاویری شواہد ہی موجود ہیں؟ٹرائل میں آخر کونسے شواہد ہیں جو پیش کیے جائیں گے؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ متعلقہ حکام سے ہدایات لیکر شواہد کے متعلق بتا سکتا ہوں۔