مہنگی بجلی حکومت کے گھر جانے کا سبب نہ بن جائے 

Aug 02, 2024

امیر محمد خان

امیر محمد خان  
عوام کے اصل مسائل کی طرف توجہ تو سب ہی دلاتے ہیں ،حزب اختلاف کہتی ہے سب خراب اور حکومت کہتی ہے سب اچھا ، یہ سالوں کا قصہ ہے جس میں عوام کی فلاح و بہبود کم اور اپنے ذاتی مفادات ، جماعتی مفادات زیادہ ہوتے ہیں ، دیر آید درست آید، جماعت اسلامی نے بجلی کے بحران کو لیکر آواز اٹھائی ہے ، بجلی ، لوڈ شیڈنگ وہ معاملات ہیں جنکی وجہ سے سخت گرمی میں اگریہ کہاجائے تو بہتر ہوگا کہ ”عوام کی مت ماری جاتی ہے “اس سال پوری دنیا کو سخت گرم موسم نے گھیرا ہے مگرہمارے ملک کے سیاست دانوں نے جو وقت پر نہیں سوچتے ہر کام ”ایڈہاک “ بنیاد پر کرتے ہیں چونکہ ملک کا نہیں سوچتے اپنے مفادات تک محدود ہیں ہمارے سیاست دان اور ملک کے کرتا دھرتا یہ ہی سمجھتے رہے کہ اسکی آبادی جو 1980 ءکے اوائل میں دس کروڑ تھی وہی رہے گی۔ 1980 ءکی دہائی تک ملک میں لوڈشیڈنگ کا نام و نشان نہ تھا۔ لیکن ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اور صنعتی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے جب بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا تو اس وقت کی حکومتوں نے اس چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے مناسب تیاری نہ کی۔ 1994ءمیں جب بجلی کے بحران نے شدت اختیار کی تو بجائے اسکے کہ ملک میں ڈیم بنانے کی طرف توجہ دی جائے تاکہ ہم خودبجلی پیدا کرنے میں خودکفیل ہوسکیں، محترمہ بینظیر بھٹو نے پہلی دفعہ آئی پی پیز کا تجربہ کیا۔پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر معاشیات ڈاکٹر مبشر حسن کی شدید مخالفت کے باوجود یہ معاہدے کئے گئے، ڈاکٹر مبشر حسن کہتے تھے کہ یہ اقدام آنیوالی نسلوں کے گلے میں طوق کے مترادف ہوگا اور پھر وقت نے ثابت کر دیا کہ انکی پیشن گوئی درست تھی۔حکومتِ پاکستان کا پلاننگ ڈویڑن اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ دار ہے جس نے یہ معاہدے کرتے ہوے سنگین غفلت کا مظاہرہ کیا۔دھرنے کے نام سے عوام کو پریشانی ہوتی ہے چونکہ 9مئی کے شاہکاروں کے دھرنے ماسوائے ملک کے نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہ دے سکا انکا مقصد بھی انتشار پھیلانہ تھا ،چین اوردیگر ممالک کے سربراہان کے دورے روک گئے تھے ، چینلز کے دفاتر پر حملے ہوئے تھے مگر جماعت اسلامی کا دھرنا نہائت ہی پرامن بلکہ وہ وہاں خود ہی صفائیاں بھی کررہے ہیں کسی شام کو خواتین کے رقص و سرور کی محافل نہیں ہوتیں،جماعت کے سربراہ حافظ نعیم عوام کے ساتھ موجود رہتے ہیں جبکہ شاہکاروں کے دھرنے میں کپتان ، شام کو وزرش کرنے اورگھر سونے جاتا تھا ، شاہکاروں کے دھرنے کے بعد صفائی کے دوران جو شرم انگیز اشیاءملیں وہ بھی ایک تماشہ تھا۔ اب تو شاہکار صرف کسی کا کندھا ہی تلاش کرتے ہیں اپنی سیاست کیلئے کبھی مولانا فضل الرحمان کبھی کسی کا ،مگر سب جانتے ہیں کہ مقاصد کچھ اور ہیں اس لئے کہیں دال نہیں گلتی صورتحال یہ ہے کہ عوام نے توجہ دینا بند کردی ہے ، نیز انکے سابقہ توڑ پھوڑ کے ریکارڈ کی وجہ انہیں انتظامیہ اجازت بھی نہیں دے رہی ، جماعت اسلامی نہائت ثابت قدمی اور پرامن طریقے سے احتجاج کررہی ہے مگر انکے کچھ مطالبات ایسے ہیں کہ جسے کوئی حکومت پورا نہیں کرسکتی چونکہ ہمارے ملک کی اشرافیہ IPPSسے وہ معاہدے کربیٹھی ہے جس سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں، مگر جہاں بد انتطامی ہے جیسے کے کئی IPPSجو بغیر بجلی فراہم کئے اربوںروپے لے رہے ہیں انکے کان کھینچے جاسکتے ہیں یہ IPPS چاہے بجلی فراہم کررہی ہوں یا نہیں اپنے ملازمین کی یونیفارم کے اخراجات بھی معاہدہ کے مطابق حکومت پاکستان سے وصول کرتے ہیں ملک کو لوٹنے والے IPPS ہوں یا IMFٰیہ سب ایک فیملی ہی ہیں۔ جب سے IPPS کا وجود عمل میں آیا ہے پاکستان میں اس وقت سے
 لیکر آج تک ہر حکومت اس تباہی کی ذمہ دار ہے کسی نے اسطرف توجہ نہیں دی اب یہ کہتے ہیں جو صحیح بھی ہے یہ معاہدے ختم نہیں ہو سکتے مگر کوئی تو راہ نکالنی پڑے گی میاں نواز شریف نے 1997ء میں مزید پاور ہاوسز لگانے کی منظوری دی۔مشرف دور میں 22آئی پی پی کے معاہدے کیے گئے،سید یوسف رضا گیلانی کے دور میں مزید معاہدے کیے گئے اور پھر 2013ءسے لیکر 2018 تک میاں نواز شریف کی حکومت نے آئی پی پیز کے معاہدوں کی تو گویا لائن ہی لگا دی۔میڈیا پر جاری ہونیوالے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 3 پاور پلانٹس ایسے ہیں جو بالکل بجلی نہیں بنا رہے لیکن انہیں ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ 37 پاور پلانٹ ایسے ہیں جو 25 فیصد سے کم بجلی بنا رہے ہیں اور 60 پلانٹس ایسے ہیں جو 25 فیصد تک بجلی پیدا کر رہے ہیں لیکن انہیں کیپیسٹی پیمنٹ کے نام پر پوری ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ کول پاور پلانٹس کو سالانہ 700ارب روپے بطور کپیسٹی پیمنٹ ادائیگی کی جا رہی ہے پاکستان نے اپنے قیام کے بعد زمینی حقائق دیکھتے ہوئے دریا?ں سے بجلی پیدا کرنے کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا تھا،جس کا دوسرا پہلو زراعت کیلئے پانی کی ضرورت پوری کرنا تھی تاہم منگلا اور تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد سیاسی کھینچاتانی اورمنصوبہ بندی کے فقدان سے یہ پروگرام آگے نہ بڑھ سکا۔جس کے نتیجے میں 1990ءکی دہائی ملک میں اب تک ختم نہ ہونے والا بجلی کا بڑا بحران لے کر آئی۔اسی دوران انتہائی تکلیف دہ لوڈشیڈنگ کو دیکھتے ہوئے نجی شعبے کو بجلی کی پیداوار میں شریک کیا گیا۔بہت سے ملکوں میں نجی شعبے کی شمولیت کی بدولت بجلی کی طلب اور رسد میں مقابلہ و مسابقت کو مرکزیت حاصل ہے،جس سے اس کے نرخ بڑی حد تک عام آدمی کے کنٹرول میں رہتے ہیں۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق غیرمسابقتی ماحول سے دوچار وطن عزیز میں بجلی صارفین کو گزشتہ پانچ برس میں 6کھرب روپے ادا کرنے پڑے۔اس وقت ملک میں بجلی کا بڑا حصہ نجی شعبہ پیدا کررہا ہے تاہم اس کی تقسیم کا نظام حکومت کے پاس ہے۔وسیع پیمانے پر چوری اور اسی قدر مراعات یافتہ طبقے کو دی جانے والی بجلی کی باقی ماندہ پیداوار کی لاگت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ بجلی کے ہوشربا بلوں سے اب وزرا ، اور کم مراعات یافتہ طبقہ بھی شور مچارہا ہے ،ایک بجلی کا بل میری نظر سے گزرا ،جس میں الیکٹرسٹی ڈیوٹی ، ٹیلی ویثرن فیس ( چاہے ٹی وی ہو یا نہ ہو ) جی ایس ٹی ،ایک اور جی ایس ٹی ، کوئی FPAٹیکس، مقررہ تاریخ پر بل ادا نہ کرنے کا جرمانہ وغیرہ اب حکومت اس بل میں ریڈیو فیس بھی لگانے کاعندیہ دے رہی ہے۔آئی پی پیز سے مضبوط عوام دوست مذاکرات بہت ضروری ہیں جو تاحال شروع نہیں ہوئے جتنی جلد اسکا کوئی حل نکلے وہ صارفین اور سب سے زیادہ حکومت کیلئے بہتر ہوگا ورنہ یہ مسئلہ براہ راست عوام کا ہے یہ کسی بھی حکومت کو فارغ کرنے کیلئے کافی ہے چونکہ پہلے ہی سیاسی عدم استحکام ان لوگوںکی وجہ سے ناپید ہے جو ملک کے خلاف کبھی سڑک پر کبھی بیرونی طاقتوںکے ایما پر ڈیجیٹل میڈیا پرنہائت گندے پروپگنڈے پر مامور ہیں،اس سے قبل کہ جماعت اسلامی کے پرامن دھرنے کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کریں اور اس میں شرپسندوں کو شامل کردیں اسلئے حکومتی وزرا  بجائے اسکے کہ روزآنہ ٹی وی اسکرین پرآکر آئیں بائیں شائیں کریں جنکا کوئی بیان ایک دوسرے سے نہیں ملتا وزیر اعظم ان عوامی مسائل پر فوری توجہ دیں وزراتیں اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے بیانیہ کو عوام میں پذیرائی دلا سکیں۔ جماعت اسلامی انتخابی دوڑ میں پیچھے رہتی ہے مگر عوامی مسائل کو پرامن انداز میں پیش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔

مزیدخبریں