اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے عالمی امن کو خطرہ

 انور خان لودھی 
تہران میں 31 جولائی کو جو ہوا وہ حیران کن بھی تھا اور پریشان کن بھی۔ فلسطین کی تنظیم حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے سرکاری مہمان کی حیثیت سے تہران میں موجود تھے کہ محافظ سمیت شہید کردیے گئے۔ حملہ کی نوعیت، ٹیکنالوجی اور منصوبہ سازوں کا کوئی اتا پتا نہیں لیکن اسماعیل کس کی آنکھ میں سب سے زیادہ رڑکتے تھے دنیا جانتی ہے۔ حماس اور اسرائیل عشروں سے ایک دوسرے کے خلاف بر سرِ پیکار ہیں اور اس لڑائی میں گذشتہ دس ماہ سے ہولناک شدت آئی ہے۔ پچاس ہزار فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے۔ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کو امریکہ دہشت گرد قرار دے چکا ہے۔ ان کی شہادت پر امریکہ کا پالیسی بیان تو سامنے آگیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو امریکہ نے قتل کیا نہ کوئی ایسا منصوبہ امریکہ کے علم میں تھا۔ اب رہ گیا اسرائیل تو اس کی خاموشی سب کچھ کہہ رہی ہے۔ ایران کے دارالحکومت میں گھس کر ان کے مہمان اور حلیف کو ما دیا گیا۔ ایران کا اس پر غم و غصہ انتہا پر ہے اور فطری بھی۔ تہران میں سرخ پرچم لہرا دیئے گئے ہیں جو اس عزم کی علامت قرار دیے جاتے ہیں کہ ہم بدلہ لیں گے۔ ایران کس سے بدلہ لے گا۔ دشمن ابھی خاموش یے۔ ایران بھی دشمن کا نام نہیں لیا تاہم حماس نے اسرائیل کو نامزد کردیا ہے۔ سب کچھ اظہر من الشمس ہے۔ عالمی امن کو خطرہ بڑھ گیا ہے۔ غصے اور انتقام کا لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ اس پر حملہ ہوا تو طاقت سے جواب دیا جائے گا۔ جمعرات کو جب اسماعیل ہنیہ کی نمازِ جنازہ تہران یونیورسٹی میں ادا کی گئی تو اس میں ملک کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای اور صدر مسعود پزشکیان بھی شریک تھے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس حملے کے مرتکب کو سخت سبق سکھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ایرانی رہبرِ اعلیٰ کا کہنا ہے کہ چونکہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایران میں ہوا ہے اس لیے وہ ان کے خون کا بدلہ لینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اسماعیل ہنیہ نے ایران کے متعدد دورے کیے تھے جس میں انھوں نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام سے باقاعدگی سے ملاقاتیں کی تھیں۔اسماعیل ہنیہ کے علاوہ اسلامی جہاد کے رہنما، لبنان کی حزب اللہ کے سینیئرکمانڈر اور یمنی حوثیوں کے ایک اعلیٰ رہنما بھی ایرانی صدر کی تقریبِ حلف برداری میں پہلی صف میں موجود تھے۔ تقریب سے قبل ان سب نے آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقاتیں کی تھیں جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا تھا۔ عالمی میڈیا کے مطابق اسماعیل ہنیہ اور ان کا محافظ شمالی تہران کے ایک گیسٹ ہاو¿س میں موجود تھے جب مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے انھیں ایران کی فضائی حدود کے باہر سے فائر کیے گئے میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پچھلی دہائی میں ہونے والے ایرانی جوہری سائنسدانوں کے قتل کے پیچھے بھی اسرائیل کا ہاتھ تھا لیکن یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیل نے کسی ممتاز سیاسی رہنما کو نشانہ بنایا ہے۔ ہنیہ کا قتل نہ صرف ایران کے لیے شرمندگی کا باعث ہے بلکہ یہ اس کی سکیورٹی ایجنسیوں کی صلاحیتوں پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ سابق ایرانی انٹیلی جنس وزیر علی یونسی نے تین سال قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران میں اسرائیلی دراندازی اتنی گہری ہو چکی ہے کہ تمام حکومتی اہلکاروں کو اپنی جانوں کا خوف ہونا چاہیے۔ بہر کیف اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیل کے جنوبی بیروت میں لبنان کی حزب اللہ کے سب سے سینئر فوجی کمانڈروں میں سے ایک کو ہلاک کرنے کے دعوے کو چند گھنٹے ہی گزرے تھے۔ اب ایران بھی خطے میں موجود اپنی پراکسی ملیشیا کو اسرائیل پر حملوں کا کہہ سکتا ہے۔ پہلے ہی خطے کے مبصرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی ایک نیا رخ اختیار کر سکتی ہے اور فریقین میں براہ راست جنگ چھڑنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
ایران کے نئے صدر مسعود پزشکیان کو اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی ایک سنگین چیلنج کا سامنا کرنا ہڑا یے۔ پزشکیان کو نسبتاً ایک اعتدال پسند ایرانی صدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے جنھوں نے بیرونی دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر کرنے کا عہد کیا ہے۔ انھوں نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ کل وہ ان کے ساتھ پارلیمنٹ میں ان کا ہاتھ اوپر اٹھا رہے تھے اور آج وہ ان کے جنازے کو کندھا دے رہے ہیں۔ مسعود پزیشکیان نے فلسطین کی حمایت کرنے کے بعد کہا تھا کہ ان کی حکومت متوازن اور ہم آہنگ خارجہ تعلقات کے ذریعے قومی مفادات اور عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھے گی۔ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت نے ان کے ان منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ایران کے ایک ایسے صدر جو بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کو ٹھیک کرنے کے خواہشمند ہیں کے ساتھ ایران اسرائیل کے خلاف پورے پیمانے پر حملہ کرنے میں ہچکچا سکتا ہے۔ قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی، جو اسرائیل اور حماس کے درمیان اہم ثالث ہیں نے کہا کہ ہنیہ کے قتل نے مذاکرات کی سنجیدگی پر سمجھوتہ کیا ہے، کیونکہ وہ مذاکرات میں حصہ لینے والی ایک اہم شخصیت تھے۔ اسماعیل کے قتل سے امن مذاکرات ختم ہونے اور جنگ میں مزید فریقوں کے کود پڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ تہران میں حملے سے حملہ آور کی عیاری اور میزبان ملک کی دفاعی خامی عیاں ہے۔ ایران کے ساتھ ساتھ عالم اسلام مایوسی، غصے اور صدمے میں ہے۔ غصہ حد سے بڑھ جائے تو پھر حالات معمولی نہیں رہتے۔ رہے نام اللہ کا

ای پیپر دی نیشن