فتنہ قادیانیت کا مقابلہ حسن معاشرت 

فریب سود و زیاں 

حیدر عباس کلیال 
haiderabbasraja556@gmail.com
قادیانیت کی تبلیغ و اشاعت سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ملک کے طول و عرض میں ہیجان بپاءکر رکھا ہے۔ اکثر علماءمذہبی تنظیمیں اور عوام فیصلہ پڑھے پرکھے بغیر ہی اس پہ تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔اس بات کے قطع نظر کہ فیصلہ درست ہے یا نہیں ، اس فیصلے کے مستقبل پہ کیا اثرات مرتب ہوں گے ، اس پہ تنقید مثبت ہے کہ منفی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ فیصلہ بہت معلوماتی ہے اس میں مسئلہ قادیانیت ، علماءقانون دانوں ، وزیر قانون ،تب کے وزیر اعظم سمیت بےشمار لوگوں کے کردار اور آراءکو اجاگر کیا گیا ہے۔ قرآن کی آیات ، احادیث اور فقہاءو علماءکی آراءسے لبریز ہے۔
  قادیانیت کی تبلیغ و اشاعت کے پس منظر میں مجھے چند سال پرانا ایک قصہ یاد آ رہا ہے۔ معلوم نہیں کیوں اتنا اھم واقعہ میری یاداشت سے محو ہو گیا تھا میں کبھی اس پہ کچھ لکھ نہ سکا۔ 
 یہ تقریباً آٹھ سال پرانی بات ہے سرگودھا کے میرے ایک گھوڑے وند (گھوڑوں کے شوقین) دوست کا فون آیا کہ ایک کورٹ میرج کرانی ہے ہم پانچ سات بندے آئیں گے ہمارے قیام و طعام کا انتظام بھی کرو۔ میں قیام و طعام کی حامی بھر لی لیکن کورٹ میرج سے یہ کہہ کر معذرت کی کہ میں کورٹ میرج کیس ڈیل ہی نہیں کرتا لیکن وہ بضد تھے کہ معاملہ بہت حساس ہے فون پہ تفصیل نہیں بتائی جا سکتی اور یہ کہ مجھے یہ کام ہر حال کرنا ہوگا میں نے اس شرط پہ حامی بھر لی کہ اگر وہ لوگ مجھے قائل کر سکے کہ معاملہ واقعی بہت حساس ہے تو کورٹ میرج کرا دوں گا ورنہ معذرت۔ دلہے سمیت پانچ مرد ایک ادھیڑ عمر خاتون اور ایک نوجوان لڑکی پہ مشتمل یہ قافلہ بتائے گئے وقت سے کئی گھنٹے لیٹ رات گئے میرے فارم ہاوس پہ پہنچا۔ فارم کے نزدیک ہی ایک خالی مکان میں ان کی رہائش کا انتظام تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر میرے دوست نے مجھے بتایا کہ یہ لڑکی قادیانی ہے اور ہم سب کے سامنے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونا چاہتی ہے اس کے بعد صبح اس لڑکے کے ساتھ اس کا نکاح کرنا ہے اور ہم لوگ اگلی منزل پہ روانہ ہو جائیں گے کیونکہ اس لڑکی کے والدین اور اقارب سائے کی طرح ہمارا تعاقب کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو دو جگہ سے عین نکاح کے وقت بھاگنا پڑا تھا۔ میں نے لڑکی کو سمجھانے کی کوشش کہ یہ عشق کا بھوت دو چار دن میں اتر جائے گا خود بھی ذلیل ہوگی ان بیچاروں کو۔بھی کرو گی بہتر ہے واپس چلی جاو۔ لیکن لڑکی نہ مانی۔ میں نے استفسار کیا کہ اسلام کے متعلق کچھ پڑھ کر فیصلہ کیا ہے کہ لڑکے کے عشق میں اسلام قبول کر رہی ہو۔ لڑکی نے تفصیل سے بات کرنے کی اجازت چاہی اور بتایا کہ وہ یونیورسٹی کی طالبہ ہے اس نے اپنی کلاس فیلوز میں سے کسی لڑکی سے مذہبی بحث کے دوران سیرت النبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کیا اور مرزا قادیانی کے کردار کو اس کسوٹی پر پرکھا تو اس خوش بخت کو حق پہنچاننے میں ایک لمحہ بھی نہ لگا اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ہر حال اسلام قبول کر کے اس گند سے نکلے گی۔ اس کے بقول قادیانیوں کے پاس جو اسلامی لٹریچر ہے یعنی قرآن و حدیث وغیرہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کے علاوہ ان کا اپنا مذہبی لٹریچر انتہائی مضحکہ خیز ہے گالم گلوچ اور اخلاقی پستی کا شاہکار ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس مذہبی ذخیرے کے باوجود کیوں لوگ قادیانیت قبول کرتے ہیں تو اس کا جواب پاوں تلے زمین نکالنے کیلئے کافی تھا وہی جواب آج اس تحریر کا باعث بھی ہے۔ اس لڑکی کے بقول کوئی بھی شخص ان کا مذہبی لٹریچر پڑھ کر قادیانی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس مذہبی ذخیرے میں کوئی کشش ہے نہ ہی اس لائق ہے کہ کسی عام سے فہم فراست کے انسان کو متاثر کر سکے۔عام لوگوں کو مائل کرنے کا اصل باعث ان کا منافقانہ لیکن بظاہر اچھا اور مثبت طرز معاشرت ہے۔ وہ چھوٹے موٹے کاروباریوں یا مزدوروں کے قرض ادا کر دیتے ہیں ، بچوں کی شادیوں میں مدد کرتے ہیں ، قرض حسنہ دیتے ہیں ، بیرون ملک سیٹل کرا دیتے ہیں اسی طرح کے انگنت پیکج ان کے پاس ہوتے ہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ بھوک ، قرض کاروباری نقصانات اور غربت کیسی بڑی آفات ہیں یہ آفات دین و ایمان بآسانی بھلا سکتی ہیں ان مشکل حالات میں کسی بھی ضرورت مند کیلئے قادیانیت قبول کرنا مشکل فیصلہ نہیں۔ یہ لوگ عام مسلمانوں کے ہاں رشتے دیتے بھی ہیں اور رشتے کرتے بھی ہیں ان تمام بھلائیوں کا مقصد آپ بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ بہر حال لڑکی کے بقول اس کا قبول اسلام بہت مشکل بلکہ بظاہر ناممکن لگ رہا تھا اس کا ممکنہ انجام اذیت ناک موت تھی اور وہ اپنے چند رشتہ دار خواتین و حضرات کا حشر دیکھ چکی تھی۔ جو گروہ عام لوگوں کو مائل کرنے کیلئے اس حد تک جا سکتا ہیں وہ بھلا اپنی لڑکی کو ہاتھ سے نکلنے دیتے۔وہ کہنے لگی کہ اس کے ذہن میں جو قابل عمل حل آیا وہ یہی تھا کہ کسی تگڑے زمیندار گھرانے میں شادی کر لے جو اس کے خاندان کا مقابلہ کر سکے کیونکہ اس کا خاندان جاہ و حشمت والا تھا بہت تگڑے لوگ تھے۔ لہذا لڑکی نے میرے دوست کے جاننے والے اس تگڑے خاندان سے بات کی اس موقع پہ لڑکی نے اعتراف کیا کہ ایک ہی گاوں کے ہونے کے باعث اس لڑکے کیلئے پسندیدگی کے جذبات بھی بہر حال تھے۔ قصہ مختصر کہ جانباز اور دلیر نوجوان اس شادی کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہوئے تیار ہو گیا اور بڑے بزرگ بھی مستقبل کے تمام مسائل و مشکلات کو اچھی طرح سمجھنے جاننے کے باوجود اس آگ میں کودنے کو تیار ہو گئے۔ اس لڑکی اور لڑکے کے پورے خاندان کا جذبہ ایمانی دیکھ کر میں فرط جذبات سے آبدیدہ ہو گیا مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ جانے کون سی نیکی میرے کام آئی کہ اتنی بڑی سعادت میرے حصے میں آ رہی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ اس ماحول میں ہی اکیلا ہی آبدیدہ نہ تھا بلکہ تقریباً سب ہی لوگ رو رہے تھے لڑکا بظاہر ادھر ادھر دیکھ کر توجہ بٹا کر آنسو روکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا جبکہ لڑکی کی سسکیاں واضح طور پر سنی جا سکتی تھی۔ کچھ دیر ہم سے کوئی بھی کچھ نہ بولا گھمبیر خاموشی سی چھائی ہوئی تھی۔ کچھ توقف کے بعد میں اٹھا اور نوجوان جوڑے کو تسلی دی کہ بے فکر رہیں میں نکاح بھی کرا دوں گا اور حالات بہتر ہونے تک میزبانی بھی کروں گا۔ حسب وعدہ اگلے روز نکاح خواں و رجسٹرار کو گاوں بلا کر ان کا نکاح کرا دیا۔ نکاح کے بعد وہ میرے اسرار کے باوجود نہ رکے لڑکے کے والد کے ساتھ میرا کچھ عرصہ رابطہ بھی رہا بیچاروں کو لڑائی جھگڑوں سے لیکر چوری اور منشیات کے مقدمات تک بھگتنے پڑے لیکن وہ ڈٹے رہے اور لڑکی قادیانیوں کے حوالے نہ کی۔ اب کافی عرصہ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا جانے کس حال میں ہوں گے۔ 
 میں سوچنے پہ مجبور ہوں کہ ہم نے ان کے زہریلے لیکن بظاہر اعلیٰ حسن معاشرت کا کیا توڑ کیا ہے۔ توڑ تو کیا کرتے ہم نے اس پیرائے پہ کبھی سوچا بھی نہیں۔ کیا ہمارے تاجر حضرات معیار ، مقدار اور قیمت میں مرزئی تاجروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ کیا ہم نے اپنے ارد گرد کبھی قرض جیسی لعنت میں ڈوبے لوگوں کی دستگیری کی؟ کسی کاروباری مشکلات میں گھرے شخص کی مدد کی؟ بچوں کی شادیوں سے پریشان، مالی حالات سے تنگ یا امراض کے شکار گھرانوں کی کوئی خبر گیری کی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو شاید تشنہ ہی رہیں گے۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ قادیانی کبھی بھی کسی مستحق کی مدد کی تشہیر نہیں کرتے انتہائی خفیہ طریقے سے سارا نیٹ ورک چل رہا ہے جس کے باعث ان کا شکار ہونے والے سادہ لوح لوگ رازداری کی یقین دہانی کی زد میں آ جاتے ہیں۔ جب کہ ہمارے مخیر حضرات انتہائی ڈھٹائی سے چند سو روپیہ کے آٹے چینی کی مدد کی تشہیر سوشل میڈیا پہ کرتے نہیں چوکتے۔میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں قادیانیوں پہ پابندیوں ، جلاو گھیراو یا عشق رسول کے کھوکھلے نعروں سے کبھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ مسئلے کا حل عشق رسول نہیں سیرت رسول ہے۔ جب ہم نے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ عمل پیرائ ہونے کا فیصلہ کر لیا اور میثاق مدینہ جیسے عظیم الشان معاشرتی ، سماجی و عمرانی معاہدے کو سمجھ لیا یقین کریں اس دن کوئی مداری اور کذاب ہمھیں بھٹکا نہیں سکے گا اس دن ان پہ پابندیوں کی بجائے شیطان جتنی کھلی چھوٹ بھی دے دی گئی تو بھی یہ گروہ کسی کو بہکا نہیں سکے گا۔

ای پیپر دی نیشن