استحکام پاکستان کے لئے کچھ ناگزیر تقاضے

 رانا ضیاءجاوید جوئیہ 
14 اگست 1947 یعنی آج سے 77 سال پہلے اللہ کریم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو نہ صرف انگریزوں کی غلامی بلکہ ہندووں کی ممکنہ غلامی سے آزادی دلوا کر ایک الگ پیارے ملک پاکستان سے نوازا اور اس قیام پاکستان کی ایک بڑی بات یہ ہے کہ دنیا میں مزہب کی بنیاد پر بننے والا یہ پہلا ملک ہے اور اس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی اسی کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہزاروں میل دوری پر واقع مشرقی پاکستان بھی پاکستان کا حصہ بنا پاکستان اسلام کے نام پر بننے کے ایک سال بعد دنیا بھر کے یہودیوں نے یہودیت کی بنیاد پر ایک بڑی سازش کے بعد اسرائیل بنایا اسرائیل بنانے والے ایسے سازشی لوگ تھے کہ انہوں نے پہلے ایک بڑی جدوجہد کے بعد مسلمانوں کے خلافت جیسے عظیم ادارے کو ہی ختم کروا دیا خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے 
اسرائیل نے اپنے قیام کے فوری بعد یہ محسوس کیا کہ مسلمانوں میں نظریاتی اساس پر بننے والا واحد ملک پاکستان ہے اس لئے انہوں نے اور ان کے گاڈ فادرز نے فوری طور پر پاکستان کو مستقل عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ سازیاں بھی کیں اور انکو عملی جامہ پہنانے کے لئے باقاعدہ کام بھی کیا اس سلسلہ میں سب سے پہلے ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعہ منصوبہ سازی کر کے کشمیر کا زمینی راستہ بھارت کو دیا اسی طرع حیدرآباد، جونا گڑھ اورکشمیر کے ایسے مسائل پیدا کر دئے گئے کہ پاکستان استحکام حاصل نہ کر سکے اسی طرع نہری پانی کی غیر منصفانہ تقسیم اور اثاثوں کی غیر منصفانہ تقسیم میں بھی اتنی دیر کی گئی کہ قیام پاکستان کے فوری بعد پاکستان اپنے سرکاری ملازمیں کو تنخواہ بھی دینے کے قابل نہی تھا ان سب باتوں اور پیدا کئے گئے مسائل کے پیچھے بنیادی سوچ اسرائیل بنانے والوں کی یہی تھی کہ پاکستان کو اتنے عدم استحکام کا شکار کر دیا جائے کہ پاکستان اپنا وجود ہی برقرار نہ رکھ سکے 
اسی طرع قیام پاکستان کے فوری بعد دشمن نے مشرقی اور مغربی پاکستان جو جغرافیائی طور پر دور لیکن نظریاتی طور پر بھائی بھائی تھے کے درمیان نفرتیں پھیلائیں اس مقصد کے لئے باقاعدہ سازش کے طور پر مشرقی پاکستان میں ہندو استادوں نے بچوں کے ذہن میں پاکستان کے خلاف نفرتیں پیدا بھی کیں اور پختہ بھی کیں بدقسمتی سے مغربی پاکستان کے لوگوں نے انکا توڑ نہی کیا اور نفرتیں بڑھتی ہی چلی گئیں پھر دشمن نے 1965 میں اس ملک کو ختم کرنے کے لئے باقاعدہ جنگ کی جس میں دشمن ہمارے جزبوں کے سامنے ہار گیا لیکن دشمن ہمت نہی ہارا اور اس نے 1971 میں مشرقی پاکستان کو ایک علیحدہ ملک بنوا دیا اور بھارتی وزیراعظم نے بڑے فخر سے یہ نعرہ لگایا کہ ، " آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے " اس کے بعد دشمن نے ہمیں تباہ کرنے کے ارادے سے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے لئے کام کیا لیکن اللہ کریم کے فضل و کرم سے پاکستان نے بھارت سے بہتر ایٹمی صلاحیت حاصل کر کے بھارت اور اسرائیل اور ان کے آقاوں کے عزائم کو ناکام بنا دیا لیکن قارئین گرامی دشمن نے ابھی منصوبہ سازی چھوڑی نہی بلکہ اب اس نے مزید بہتر منصوبے بنائے ہیں پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے جیسا کہ ہمارے تعلیمی نظام سے بچوں کی تربیت والے پہلو کو ہمارے نظام سے نکلوا دیا ہے اب بچوں کی تربیت اینڈرائیڈ موبائلز اور ٹیبلٹس کر رہے ہیں ، اسی طرع دشمن نے ہمارے صوبوں کے درمیان صوبائی عصبیتیں بڑھا کر انہیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے، اسی طرع دشمن نے فرقہ وارانہ نفرتیں پیدا کر دی ہیں کامیابی سے، اسی طرع دشمن نے ہماری کمزور گورننس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اقتصادی طور پر تباہ ہونے کے قریب پہونچا دیا ہے اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ دشمن نے بڑی کامیابی سے ہمارے عام لوگوں کی سادگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنا ایجنٹ بنا لیا ہے جو جانے میں یا پھر انجانے میں دشمن کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے کبھی پاکستان کی افواج کے خلاف بیان بازیاں کرتے ہیں اور کبھی تو خود پاکستان ہی کے خلاف باتیں کرتے ہین مثال کے طور پر یہ کم فہم سادہ لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے یا پاکستان میں کیا ہے یا پاکستان کی افواج پاکستان کی تباہی کی ذمہ دار ہیں وغیرہ یہ کام تو دشمن کا ہے کہ عوام اور افواج میں فاصلے اور نفرتیں پیدا کر دی جائیں تاکہ دشمن کی جارحیت کے وقت عوام اور افواج ایک پیج پر نہ ہوں بات مسائل کی لمبی ہو گئی ہے مسائل بہت سے ہیں لیکن دشمن کے پیدا کئے گئے مسائل ہیں اور ان مسائل نے پاکستان کو واقعی عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے اس سلسلہ میں ہم سب پاکستانیوں کو ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنا چاہئے جن سے عدم استحکام کا شکار ہمارا پیارا ملک عزیز اتنا مستحکم ہو جائے کہ دشمن کے تمام تر عزائم ناکام ہو جائیں اور پاکستان تا ابد قائم رہے اس سلسلہ میں موقر روزنامہ نوائے وقت کی وساطت سے میں کچھ تجاویز اپنے ملک کے عوام اور ارباب اختیار کے لئے پیش کرتا ہوں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم دشمن کی 77 سالہ محنت کو بہت تھوڑی دیر میں مکمل طور پر ضائع کر کے استحکام پاکستان میں ایک موثر کردار ادا کر سکتے ہیں
اس سلسلہ میں میری سب سے پہلی تجویز یہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کو ہم قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کرنے کے لئے اسے نہ صرف اپنے تعلیمی نظام کے ذریعے بلکہ سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ایک بڑی مہم چلائیں جس میں ہم ہر ذمہ دار پاکستانی سے یہ التجا کریں کہ وہ کم از کم 5 بچوں کو تاریخ سے مکمل آگاہی دیتے ہوئے بتائیں کہ پاکستان کیوں حاصل کیا گیا تھا اور اب پاکستان کا مستقبل کس طرع ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے اگر ہماری نئی نسل قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد سے آگاہ ہو گی تو یقینی طور پر انہیں پاکستان سے پیار ہو گا اور جب انہیں پاکستان سے پیار ہو گا تو پھر وہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے والی ہر قوت کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے اور پاکستان کو مستحکم کرنے کے لئے اپنی پوری توانائیاں صرف کریں گے ایک آگاہ پاکستانی استحکام پاکستان کے لئے ایک ناگزیر ضرورت ہے اس لئے ہمیں ہر سطح پر ،"آگاہ پاکستانی" مہم پورے زور شور سے شروع کرنا چاہئے خواہ ہم گھر میں ہوں، خواہ دفتر میں خواہ کسی بھی رول پر ہوں تو ہمیں آگاہ پاکستانی مہم کے لئے ایک کردار ضرور ادا کرنا ہے
اس کے بعد ہمیں سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ خواہ کچھ بھی ہو خواہ جتنے بھی مسائل ہوں ہم ان مسائل کے حل کے لئے بھرپور کوششیں ضرور کریں گے لیکن کبھی بھی دشمن کے ایجنٹ کی طرع اپنے ملک یا اپنی افواج یا اپنے اداروں کے خلاف کوئی بات نہی کریں گے مسائل کے حل کی کوشش ضروری لیکن اپنے اداروں اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا کر کے نہی بلکہ فاصلے کم کر کے مسائل ختم کریں گے رائے ضرور دیں گے لیکن دشمن کو نہی بلکہ اپنے انٹرنل سطح پر تاکہ دشمن کامیاب نہ ہو سکے اور اگر مسلسل کوئی پاکستان کے خلاف بات کر رہا ہو تو پھر اسے ملک دشمن ایجنٹ کے طور پر سخت سزائیں بھی دے کر ہم نے ہر صورت اپنے عوام اور اداروں کے درمیان پیدا کئے گئے فاصلوں اور نفرتوں کو ختم کرنا ہے 
تعلیم کے ساتھ تربیت کا پہلو جو ابھی تک فراموش کیا جا رہا ہے اسے بہت زیادہ اہمیت دینا ہو گی کیونکہ ہمیں اچھے استاد، اچھے ڈاکٹر ، اچھے انجینیئرز ، اچھے تجار سے زیادہ اچھے انسانوں کی ضرورت ہے اور اچھا انسان بننے کے لئے تعلیم کے ساتھ ناگزیز جزو تربیت ہے اور تربیت ہی ہمیں ایسے اچھے انسان دے گی جو خواہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ہوں وہ ذمہ دار پاکستانی ہوں گے اور ذمہ دار پاکستانی کے طور پر ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستان کو مستحکم کرنے کے لئے بہت ہی موثر کردار ادا کر سکتے ہیں تو آئیے آج سے یہ عہد کریں کہ ہم اپنے بچوں کی کیئرئیر پلیننگ کے ساتھ ساتھ انکی تربیت کے لئے اپنا کردار ادا کریں 
پاکستان میں آج ہم سندھی بھی ہیں، پنجابی بھی ہیں، بلوچی بھی ہیں، پختون بھی ہیں کشمیری بھی ہیں لیکن نہی ہیں تو شاید بس پاکستانی نہی ہیں کیونکہ ہماری صوبائی عصبییتوں کو دشمن نے کامیابی سے اس نہج پر پہونچا دیا ہے کہ ہمارے صوبے ایک دوسرے کو دشمن ملک کی طرع دیکھنا شروع ہو گئے ہیں اس سلسلہ میں سانحہ مشرقی پاکستان ہمارے لئے ایک بہت بڑا سبق ہے ہمیں اس سانحے سے سبق حاصل کرتے ہوئے صوبوں کے درمیان بڑھتے فاصلوں کو نا صرف مزید بڑھنے سے روکنا ہے بلکہ پہلے سے پیدا ہوئے فاصلوں کو ختم بھی کرنا ہے اور ان کے درمیان مواخات مدینہ کی طرع والا بھائی چارہ پیدا کرنا ہے اس سلسلہ میں ذمہ دار پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کا کردار بہت اہم ہے اب اگر ایک سندھی لکھتے ہوئے بلوچستان کے بارے میں اچھا لکھے گا یعنی ہر صوبے کا ہر لکھاری اپنے صوبے پر لکھنے کی بجائے دوسرے صوبوں کے لوگوں کی اچھائیوں کے بارے میں لکھے گا تو یقینی طور پر محبتیں پیدا ہوں گی اور ہمیں یہ زہن میں رکھنا ہو گا کہ ہم نے پاکستان صوبائیت کے نام پر نہی بلکہ کلمہ توحید کی بنیاد پر حاصل کیا ہے اس لئے اس رشتے سے ہم سب آپس میں بھائی بھائی ہیں گلے شکوے بھائیوں میں ہو سکتے ہیں لیکن وہ ایک دوسرے سے نفرت نہی کر سکتے ہمیں صوبوں کے درمیان محبتیں پھیلانا ہیں 
اسی طرع ہم سنی بھی ہیں، شیعہ بھی ہیں، اہلحدیث بھی ہیں ،بریلوی بھی ہیں دیوبندی بھی ہیں نہی ہیں تو شاید بس پکے مسلمان نہی ہیں اور شاید ہمارا اسلام بس ہماری زبانوں تک رہ گیا ہے اگر ہم پکے مسلمان ہیں تو ہم کسی بھی کلمہ گو بھائی سے کسی فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت کیسے کر سکتے ہیں ہمیں اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے فرقہ واریت کے زہر کو اپنے معاشرے سے ختم کر کے اسلامی بھائی چارے کو فروغ دینا ہے اور کوئی بھی کلمہ گو بھائی خواہ وہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتا ہو ہمیں نہ صرف اسے بھائی سمجھنا ہے بلکہ بھائی کی طرع سلوک بھی کرنا ہے ہمیں ہر مسلمان کو بھائی سمجھ کر اسے ہونے والی ہر تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا ہے کیونکہ ہم مسلمان کے طور پر ایک جسم کی مانند ہیں 
ذمہ دار ہونا ایک انتہائی ناگزیر ضرورت ہے استحکام پاکستان کے لئے اگر ہم پاکستان کو مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک ذمہ دار پاکستانی بننا ہو گا اور ہمیں یہ روش چھوڑنا ہو گی کہ ہمارے ذمہ دار ہونے سے کیا ہوتا ہے یہاں تو سارا سسٹم ہی تباہ شدہ ہے ہمیں دوسروں پر تنقید والی روش چھوڑ کر اپنے حصے کا کردار پوری ذمہ داری سے آگاہ کرنا ہو گا مثال کے طور پر اگر ہم استاد ہیں تو ہمیں بچوں کی تعلیم و تربیت پر اپنی اگلے گریڈز میں ترقی سے زیادہ زور دینا ہو گا، اگر ہم تاجر ہیں تو ہمیں پوری دیانتداری سے تجارت کرنا ہو گی ، اگر ہم افواج پاکستان کا حصہ ہیں تو ہمیں دفاع پاکستان والی اپنی ذمہ داریاں دیانتداری سے نبھانا ہوں گی اگر ہم عدلیہ ہیں تو ہمیں اپنی پوری توانائیاں صرف اور صرف انصاف کی فراہمی کے لئے خرچ کرنا ہوں گی مختصر یہ کہ ہم زندگی کے جس شعبہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں ہمیں باقی سسٹم پر تنقید میں وقت ضائع کرنے سے زیادہ اپنے فرائض پوری دیانتداری سے ادا کرنا ہوں گے اس طرع جب ہر پاکستانی اپنی ذمہ داریاں اور فرائض ادا کرنا شروع کر دے گا تو یقینی طور پر پاکستان کے بگڑتے حالات بہترین ہو جائیں گے 
اتحاد امت مسلمہ ایک ایسی نعمت خداوندی ہے جو ہمیں ہمارے تمام مسائل سے نجات دلا سکتی ہے امت مسلمہ اگر واقعی امت مسلمہ بن جائے اور طاقتور مسلم ممالک کمزور مسلم ممالک کی مدد کریں انہیں اپنا بھائی سمجھتے ہوئے یقین مانئے اگر ہم اتحاد امت مسلمہ حاصل کر لیں تو پھر نا صرف پاکستان مستحکم ہو جائے گا بلکہ پوری امت مسلمہ محفوظ ہو جائے گی اور پھر دنیا کی کوئی طاقت نہ کشمیریوں پر ظلم و ستم کر سکے گی نہ غزہ میں فلسطینیوں پر بلکہ اس سے بڑھ کر متحد امت مسلمہ دنیا کے غیر مسلموں کو بھی ان پر ہونے والے ظلم و ستم سے بچانے کاسبب بنے گی تو آئے آج اگست کے اس با برکت مہینے میں یہ عہد کریں کہ ہم اتحاد امت مسلمہ کے حصول کے لئے اپنا کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کریں گے
ایک بہت ہی ناگزیر ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہم اپنی تعلیم میں عصر حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب تبدیلیاں لائیں مثال کے طور پر صرف کمپیوٹر سائینس پڑھانے کی بجائے آرٹیفیشل انٹیلیجنس، سائبر سکیورٹی اور ڈیٹا سائنسز پر فوکس کریں اور ہم اہسے تعلیم یافتہ ہنر مند افراد پیدا کریں جو نوکری نوکری کھیلنے کی بجائے گھر بیٹھ کر بغیر وسائل کے ہی اپنا بزنس بھی کر سکیں اور آن لائن جابز بھی انٹرنیشنل مارکیٹ میں گھر بیٹھے کر سکیں صرف تعلیم یافتہ قوم کافی نہی بلکہ ہنر مند تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ قوم ہو اس کے لئے ہمیں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو ہمیں ابھی سے کر لینا چاہئے ورنہ جب انکا وقت گزر جائے گا تب یہ تبدیلیاں کرنے سے کچھ فائدہ نہ ہو گا
ہم ہمیشہ بات کرتے ہیں کہ فلاں ایک قوم ہیں اور ہم بس ایک ہجوم ہیں ہمیں واقعی ایک ہجوم سے زیادہ ایک قوم بننے کی ضرورت ہے اور قوم ہم کسی فرقہ واریت یا صوبائیت یا کسی بھی عصبیت کے زیر اثر بن ہی نہی سکتے البتہ اسلام ایک ایسی قوت ہے جو ہمیں نہ صرف ایک قوم بلکہ ایک منظم قوم بنا سکتی ہے اگر ہم عملی طور پر مسلمان بن جائیں تو یقینی طور پر ہم ایک منظم قوم کے روپ میں سامنے آئیں گے اور پھر ہم اقوام عالم میں ایک مضبوط قوم کا مقام حاصل کر لیں گے اور یقین کیجئے گا کہ جب ہم اسلام کو اپنی زندگیوں میں لے آئیں گے تو پھر نا صرف اوپر ڈسکس کئے گئے خطرات ختم ہو جائیں گے بلکہ عدم استحکام پیدا کرنے والے تمام فیکٹرز ختم ہو جائیں گے
قارئین گرامی بات لمبی ہو گئی ہے اس آرٹیکل کے حساب سے اس لئے باقی ڈسکشن کو کسی اگلے آرٹیکل کے لئے چھوڑتے ہوئے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان میں مختلف الوجود وحدتیں اور اکائیاں ہیں جن کا جغرافیہ تک مختلف ہے ان کے درمیان کنیکٹنگ بانڈ صرف اور صرف اسلام ہے اور اگر ہم اسلام سے دور ہوتے چلے گئے تو ہمارا بانڈ ختم ہوتا جائے گس اور اگر کلمہ توحید والے کنیکٹنگ بانڈ کو ہم نے مضبوط رکھا تو پاکستان بہت تیزی سے عدم استحکام سے مکمل استحکام تک کی منازل طے کر لے گا اور ان شا  اللہ قیامت تک قائم رہے گا تو آئیے اس ماہ اگست میں جس میں ہمیں پاکستان جیسی نعمت عظیم ملی ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاریں گے اور عملی طور پر مسلمان بن جائیں گے تاکہ عدم استحکام پیدا کرنے والے تمام فیکٹرز اسلامی بھائی چارے اور اسلامی تعلیمات کے تحت ختم ہو جائیں

ای پیپر دی نیشن