جماعت اسلامی اور حافِظ نعیم الرحمٰن

سماج ساگر....ساجد سلطان 
chsajidsultan14@gmail.com

جماعت اسلامی پاکستان کی واحد سیاسی پارٹی ہے جس میں صد فیصد جمہوریت ہے، ہر سطح اور ہر طرح سے ہے۔اس کے بانی امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے جو بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور ذیلدار پارک اِچھرہ لاہور کو اپنا مسکن بنایا ۔ ان کی زندگی میں ہی لاہور کے وَسنِیک میاں طفیل محمد کو جماعت کے ارکان نے امیرِ جماعت اسلامی پاکستان منتخب کیا تو سید مودودی نے از خود فون پر انہیں اطلاع دی۔جواب میں میاں طفیل محمد نے کہا اِنا للہ واِنا اِلیہ رَاجیعون۔ سید مودودی نے کہا آپ سے مجھے یہی امید تھی۔ میاں طفیل محمد کی زندگی میں، جماعت اسلامی کے ارکان نے نوشہرہ وسیب کے پختون قاضی حسین احمد کو اپنا امیر چن لیا اور پھر ان کی زندگی میں ہی مہاجرینِ کراچی میں سے سید منور حسن کی چنوتی چوتھے امیر کے طور پر کر لی اور پھر ان کی حیاتی میں لوئر دِیر کے پٹھان سراج الحق پانچویں امیر منتخب ہو گئے اور اب پھر کراچی کے حافِظ نعیم الرحمٰن امیرِ جماعت اسلامی پاکستان کا چناﺅ کر لیا گیا۔ ہر پانچ سال بعد جماعت کے اندر باقاعدگی سے انتخابات ہوئے اور کوئی بھی امیرِ جماعت کسی بھی امیرِ جماعت کا دور کا رشتہ دار تھا نہ ہے اور کسی امیر نے اپنے آپ کو یا اپنے بعد اپنی اولاد کو اس منصب کے لیے پیش کیا نہ انتخابی مہم چلائی۔ قاضی حسین احمد پہلے امیرِ جماعت تھے جو اسلامی جمعیت طلبائ کے رفیق رہ چکے تھے۔ان کے بعد آنے والے سب امراءاسلامی جمعیت طلباءسے آئے اور سب جمعیت کے سابق ناظمِینِ اعلٰی تھے، گویا اب جماعت اسلامی کی باگ ڈور اور قیادت جمیعت کے ہاتھوں میں آ گئی ہے۔جماعت اسلامی پاکستان کا جو تشخص معاشرے میں ابھرا وہ ایک سیاسی و مذہبی جماعت کا بنا، اس لیے ایک طرف اسے سیاسی جماعتوں کا سامنا تھا تو دوسری جانب مذہبی جماعتوں کا۔ پاکستان میں چار بڑے مذہبی طبقات ہیں۔ بریلوی، دیوبندی، اہلِ حدیث اور اہلِ تشیع اور یہ چاروں جماعت اسلامی کے خلاف ہیں جبکہ نیم مذہبی یا سیکولر افراد جماعت کو سخت گیر مذہبی جماعت سمجھ کر اس سے دور رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے جبر و اِکراہ کے ردِعمل میں میاں طفیل محمد نے شروع شروع میں ضیاءالحق کا ساتھ دیا لیکن بہت جلد دوری اختیار کر لی۔بعد میں قاضی حسین احمد کے زمانے میں جماعت نے افغانستان اور کشمیر کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کیا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے بدلے میں جماعت اسلامی کو انتخابات میں کبھی سہولت فراہم نہیں کی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ اگر یہ لوگ پاور میں آ گئے تو کسی کی نہیں سنیں گے اور اپنا سخت گیر اور بے لچک موقف لے کر کھڑے ہو جائیں گے۔جماعت کا مسئلہ یہ رہا کہ اس نے یہ تمام رکاوٹیں عبور کرنا تھیں یا ان کے بیچوں بیچ رستے نکالنے تھے۔
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گِل بھی ہے
اِنھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے
جبکہ ان مخالفانہ ہواو¿ں سے آزادی حاصل کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔قاضی حسین احمد نے ان ہواو¿ں کو ہمنوا بنانے کی اپنی سی سعی باتِمرہ کی ۔قاضی حسین احمد نے اہلِ دیوبند کے بڑے علمائ کو ایک خط لکھ کر یہ آفر کی کہ آپ کو سید مودودی کی جن باتوں پر اعتراض ہے ہم ان سے اعلانِ لاتعلقی کیے دیتے ہیں۔یہ خط مولانا سرفراز خان صفدر کے فرزند اور ڈاکٹر عمار خان ناصر کے والد، مولانا زاہد الراشدی نے اپنے ماہنامہ الشریعہ میں شائع بھی کر دیا۔قاضی صاحب ، اہلِ دیوبند میں وزن رکھتے تھے۔ جب وہ جماعت اسلامی پاکستان کے قیم تھے، جماعت اسلامی کے دستور کی شق جس میں لکھا ہے کہ “ جماعت اسلامی کے رکن کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو معیارِ حق نہ سمجھے، کسی کو تنقید سے بالا تر نہ سمجھے اور کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو۔ “ اس شق میں دیوبندیوں نے اپنی منشاءکے مطابق تبدیلی کی کوشش کی اور مطالبہ کیا کہ اگر جماعت اسلامی اختلافات کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اسے دستور کی اس شق میں اہلِ دیوبند کے حسبِ منشا ترمیم کرنا ہوگی۔قاضی صاحب نے کہہ دیا کہ مجلس شوریٰ میں قرارداد کی منظوری کی صورت میں ایسا کر سکتا ہوں، ورنہ جماعتی دستور میں ترمیم کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔ اس پر دونوں طرف سے خاموشی اختیار کر لی گئی۔ تھوڑے عرصے بعد قاضی حسین احمد جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوگئے۔ ابھی انہوں نے حلف نہیں اٹھایا تھا۔ ایک اجلاس میں قاضی صاحب اور مولانا زاہد الراشدی ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے قاضی صاحب کو جماعت کا امیر منتخب ہونے پر مبارک باد دی تو قاضی صاحب نے بے تکلفی سے ان کی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ اب میں ترمیم کی پوزیشن میں بھی آگیا ہوں، اب بات کرو! زاہد الراشدی صاحب نے ہنستے ہوئے دل لگی کے انداز میں کہا کہ ”رسمِ تاج پوشی کے بعد بات کریں گے“۔ یعنی وہ جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کا حلف اٹھا لیں تو اس کے بعد بات چلائیں گے۔ لیکن اس سلسلہ میں اس کے بعد پھر کوئی بات کسی طرف سے بھی باضابطہ طور پر سامنے نہیں آئی اور یہ سارا قصہ تاریخ کی نذر ہو گیا۔قاضی حسین احمد صاحب کا خاندانی پس منظر جمعیت علماءہند کا تھا۔ قاضی صاحب کا نام حسین احمد، حضرت مدنی کی نسبت سے رکھا گیا تھا۔ قاضی صاحب کہا کرتے تھے کہ میں حضرت مدنی? کی زندہ کرامت ہوں۔ ان کے امیر منتخب ہونے کے بعد لوگ یہ طعنہ بھی دیتے تھے کہ جماعت اسلامی پر جمعیت علمائے ہند نے قبضہ کر لیا ہے۔اسلامی جمعیت طلبہ، طلبائ کی سب سے بڑی جماعت تھی اور ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن جمعیت کے ناظمِ اعلٰی رہے پھر جماعت اسلامی کراچی کے امیر منتخب ہوگئے اور عوامی مسائل کے حل کے لیے کامیاب جدوجہد کی ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر منتخب ہوئے تو کراچی کی اپنی ٹیم ساتھ لاہور لے آئے جن میں ڈاکٹر اسامہ بن رضی پی ایچ ڈی میس کمیونیکیشن ، سابق ناظمِ جامعہ کراچی، حافظ نعیم الرحمٰن سے بڑھ کر بَلا کے مقرر ، اب جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر۔سلمان شیخ، سوشل میڈیا ایکسپرٹ۔عثمان شیخ نائب قیم، فراست شاہ نائب قیم، عمیر ادریس ایڈوائزر۔ یہ سارے وہ لوگ ہیں جو حافِظ نعیم الرحمٰن کی کراچی ٹیم کا حصہ تھے جنہیں امیرِ جماعت بننے کے ساتھ ہی وہ ساتھ لے آئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جماعت پہلی دفعہ سلگتے عوامی مسائل کو لے کر میدان میں اتری ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے کارکنان ، راولپنڈی کے تاجر اور حالات کے ستائے عام آدمی حافظ نعیم الرحمٰن کی اس مہم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں سوائے بہتان خان کے سوشل اینیملز کے۔

ای پیپر دی نیشن