عالمی منڈی میں تیل کی قیمت پھر بڑھ گئی۔
یہ ہماری بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے۔ اطلاعات یہ مل رہی تھیں کہ اگست سے ملک میں پٹرول کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہو گی کیونکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
تو ان میں حماس کے رہنما کی اسرائیل کی طرف سے گائیڈڈ میزائل حملے میں شہادت کے ساتھ ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت دوبارہ بڑھ گئی ہے۔ لگتا ہے ابھی ہمارے ستارے مزید گردش میں رہیں گے۔ اچھی خبریں سننے کے لیے ابھی ہمیں نجانے کب تک مزید انتظار کرنا ہو گا۔ یوں پٹرول سستا ہوتے ہوتے ایک بار پھر یا تو مہنگا ہو گا کیونکہ ہمارے وزیر کہہ چکے ہیں کہ پٹرول کی قیمت میں کمی یا اضافہ عالمی منڈی کی قیمت میں کمی یا اضافے سے منسلک ہو گا۔ مگر شکر ہے ایسا نہیں ہوا چاہے اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی سہی، حکومت نے تھوڑی سی کمی کا اعلان کر دیا۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ اب کوئی جھوٹے منہ بھی ہمیں تسلی نہیں دیتا۔ ا±لٹا ہماری رہی سہی ہمت بھی توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ کہیں سے بھی کوئی آواز تک بلند نہ کر سکے۔ بقول شاعر
گھٹ کر مر جاﺅں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے
دکھ کی بات یہ ہے کہ عالمی حالات و واقعات بھی نجانے کیوں ہمارے خلاف ہی جاتے ہیں۔ لگتا ہے سب ہمارے مخالف ہیں۔ اب کوئی ایسا منتر بھی کسی کے پاس نہیں کہ وہ پڑھ کر پھونک مارے اور حالات ہمارے موافق ہو جائیں مگر اس ظالم دنیا میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہ دنیاعالمی مالیاتی اداروں کےہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے
اقبال نے اسی لیے کہا تھا کہ
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔۔۔
ایک عہدہ اپنے پاس رکھیں، شاہد آفریدی کا محسن نقوی کو مشورہ۔
اب معلوم نہیں شاہد آفریدی ازخود چیئرمین پی سی کو یہ مشورے خلوص نیت سے دے رہے ہیں یا ویسے ہی میدان گرم کر رہے ہیں۔ اپنے ایک بیان میں خود آفریدی کہہ بھی چکے ہیں کہ ان کے اس قسم کے بیانات جو وہ کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اور پی سی بی کے حوالے سے دیتے ہیں، ان کے داماد شاہین آفریدی کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ اب یہ بات درست ہی صحیح مگر کیا باقی لوگ آفریدی کی بات سے مطمئن ہوں گے۔ خاص طور پر وہ جو براہ راست ان کی تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ ویسے بھی کھیلوں میں گروپ بندی کی وجہ سے سب ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگے رہتے ہیں۔ شاہد آفریدی ہوں یا کوئی اور۔ ان کے بھی دوست اور دشمن ہر جگہ ہوں گے۔ شاہد آفریدی عرف لالہ عرف بوم بوم سے آج بھی کرکٹ کے شائقین بہت محبت کرتے ہیں۔ وہ جہاں جائیں ان کے چاہنے والوں کا رش لگ جاتا ہے۔ سچ کہیں تو سابق کپتان خان کے بعد اگر کسی کو شہرت کی دنیا میں عروج ملا وہ شاہد آفریدی ہی ہیں۔ اب بعض عناصر کہہ رہے ہیں کہ آفریدی کو بانی کے مقابلے میں لایا جا رہا ہے۔ فی الحال یہ ممکن تو نہیں لگتا کیوں کہ آفریدی اس میدان میں نووارد ہوں گے جبکہ سیاست میں اک عمر گزر جاتی ہے۔ البتہ ان کی یہ بات قابلِ غور ہے کہ کھلاڑیوں کو ایک دوسرے کے مقابل نہ لایا جائے۔ واقعی اس سے کرکٹ کو نقصان ہو گا اور کھلاڑیوں کی کارکردگی متاثر ہو گی۔ کیوں کہ
لے سانس بھی آہستہ آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہِ شیشہ گری کا
پاکستان سے جرائم پیشہ افراد اور بھکاریوں کو روکا جائے، سعودی عرب اور یو اے ای کا مطالبہ۔
ایک وقت تھا عرب ممالک میں پاکستان ، پاکستانیوں اور ہمارے ہنر مندوں کی بڑی قدر تھی۔ عرب پاکستانیوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب دبئی، شارجہ نے ترقی کی راہ تک نہیں دیکھی تھی۔ اس وقت ہمارا کراچی عروس البلاد کہلاتا تھا۔ پھر تیل نکلا تو عربوں کی قسمت جاگی ان کی ترقی کا راستہ کھل گیا اور ہم نے وہاں نوکریوں ، محنت مزدوری کی راہ اپنا لی جو کوئی بری بات نہیں۔ آج عرب ممالک دنیا کے متمول ممالک میں سرفہرست ہیں اور ہم بھکاری ممالک میں اپنا نام درج کروا چکے ہیں۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد عرب ممالک میں روزگار کماتی ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر اب نجانے کون کون لوگ ہمارے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر وہاں جاتے ہیں ان میں منفی ذہن والے پاکستانی بھی شامل ہیں۔ یہ عرب ممالک میں جا کر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ اب تو عرب امارات والوں نے باقاعدہ رپورٹ کی ہے کہ وہاں ہونے والے جرائم میں 50 فیصد پاکستانی ملوث ہوتے ہیں۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے۔ یہ غلط لوگ پاکستان کا نام بدنام کر رہے ہیں اور ہماری ساری نیک نامی پر مٹی ڈالتے ہیں۔ ہم اس شرمندگی سے ہی دوچار ہو رہے تھے کہ اب دوسری مصیبت گلے پڑگئی ہے۔ وہ پاکستان سے جانے والے بھکاریوں کی ہے۔ ان کی کارروائیاں دیکھ کر، تنگ آ کر اب سعودی عرب نے بھی پاکستان سے کہا ہے کہ وہ پاکستان سے سعودی عرب آنے والے ایسے لوگوں کا داخلہ بند کرے جو یہاں گلی کوچوں میں بھیک مانگتے ہیں۔ اس سے اندازہ کریں کل تک جو ممالک ہماری عزت کرتے تھے اب ہم سے دامن بچا کر چل رہے ہیں ہمیں حقارت کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور ہمیں کہا جا رہا ہےکہ اپنے فقیروں اور جرائم پیشہ افراد پر کنٹرول رکھیں۔ اب اس سے زیادہ ہمارے دوست ہمیں اور کیا کہہ سکتے ہیں۔یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
پیرس اولمپکس میں چوہوں اور چوروں سے کھلاڑی پریشان۔
اگرچہ فرانس نے اولمپکس کی وجہ سے پیرس میں تمام تر حفاظتی اقدامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے والی بات بھی اپنی جگہ سو فیصد درست ہے۔ لاکھوں لوگ پیرس میں اولمپکس دیکھنے کے لیے آئے ہیں۔ ایسے میں تو چوروں کی چاندی ہوتی ہے۔ انہیں جہاں موقع ملتا ہے وہ داﺅ لگانے سے باز نہیں آتے۔ عام شہریوں کی تو بات چھوڑیں ، کئی ملکوں کے کھلاڑی بھی ان چوروں کے ہاتھوں ل±ٹ گئے اور اپنا قیمتی سامان گنوا بیٹھے۔ عام شائقین کے ساتھ بھی یہ کچھ ہو رہا ہے۔ پولیس حیران ہے مگر کوشش کر رہی ہے کہ ان چوروں کو قابو میں رکھے۔ مگر یہ جو دوسری آفت زمین سے نکل کر سامنے آ رہی ہے ، اس کا کیا بنے گا۔ پیرس کے جہازی سائز چوہوں سے کون نمٹے گا۔ بازاروں، دکانوں ، ہوٹلوں ، کھلاڑیوں کے کمروں میں بھی انہوں نے جو تباہی مچائی ہے وہ بذات خود اولمپکس انتظامیہ کے لیے پریشان کن ہے۔ اس سے پیرس کا وہ روایتی خوبصورت اور خوشبوﺅں میں بسا ہوا صاف شہر ہونے کا دعویٰ گہنا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر سال لاکھوں لوگ پیرس کا رخ کرتے ہیں۔ اب اولمپکس کی وجہ سے شہر میں کھانے پینے کی اشیاءوافر مقدار میں ملنے لگی ہیں تو چوہوں نے بھی موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے یلغار کر دی ہے اور ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں۔ فی الحال تو شاید ہی فوری طور پر کچھ ہو ، ہاں ایسا مستقبل میں انتظامیہ اس وبال پر قابو پانے کے لیے کوئی منصوبہ بندی ضرور کرے گی کیونکہ فرانس کا اور خاص طور پر پیرس کا اپنا ایک امیج ہے جسے یہ چوہے خراب کر رہے ہیں۔