وزیراعظم شہباز شریف نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی منظوری دے دی۔ فیصلے کے مطابق ڈیزل کی فی لٹر قیمت میں 10 روپے 86 پیسے کی کمی کی گئی ہے۔ پٹرول کی فی لٹر قیمت 6 روپے 17 پیسے کم کردی گئی ہے۔کہا جارہا ہے کہ مشکل اور نامساعد معاشی حالات میں وزیراعظم نے دلیرانہ فیصلہ کیا ہے۔
مختصر عرصے میں مسلم لیگ نون اور اتحادی جماعتیں دوسری مرتبہ اقتدار میں آئی ہیں۔اپریل 2022ءمیں پیش روحکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تھی۔اس وقت حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے کڑے فیصلے کرنا ناگزیر ہے۔ایسے فیصلے کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ ہم نے ریاست بچانے کے لیے اپنی سیاست قربان کر دی ہے۔فروری 2024ءکے انتخابات کے نتیجے میں کم و بیش پھر وہی جماعتیں حکومت میں آ گئیں۔اب عوام کو امید تھی کہ حکمرانوں کی طرف سے معیشت کی بحالی کے لیے جو بھی کڑے فیصلے کرنے تھے وہ 2022ءکے بعد کر لیے گئے تھے۔اب حکومت عوام کی زندگی آسان بنانے کی طرف جائے گی۔مگر مہنگائی کے ہاتھوں عوام کا عرصہ حیات مزید تنگ ہو گیا۔ حکومت کی طرف سے اب بھی کہا جا رہا ہے کہ کڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔مگر عوام میں اب ایسے فیصلے قبول کرنے کی سکت نہیں ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بیشی سے عوامی زندگی پرگہرا اثر پڑتا ہے۔ایسا ہی معاملہ بجلی کا بھی ہے۔بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اور بے تحاشہ اضافہ کیا جا رہا ہے۔ بلوں کی بھر مارسے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں گھریلو سامان بیچ کربھی بل ادا کیے جاتے ہیں۔ایک طرف لوڈ شیڈنگ دوسری طرف بھاری بل اور تیسری طرف اوور بلنگ بھی کی جاتی ہے۔اس پر صارفین کا واویلا فطری امر ہے۔اس پر وزیراعظم شہباز شریف کی بجلی بلوں کی ادائیگی کی مقررہ تاریخ میں 10 روز توسیع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔پیٹرولیم کی قیمتوں میں تھوڑی سی کمی اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں مقررہ تاریخ میں توسیع، یہ نہ ہونے کے برابر ریلیف ہیں جبکہ عوام بڑے ریلیف کی توقع رکھتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں مظاہرے ہوئے تو بجلی کی قیمت 12 روپے سے تین روپے مقرر کر دی گئی۔حکومت پاکستان کے عوام کو اتنا ریلیف نہ دے لیکن اتنا تو دے کہ بل ادا کرتے وقت صارفین کی جان پر نہ بنی ہوئی ہو.