”عاشقِ رسول سیّدنا حضرت بلالِ حبشیؓ !“

معزز قارئین! گزشتہ دِنوں 20 محرم اُلحرام (27 جولائی2024)کو پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمان پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کے موذن (حبشی نژاد) حضرت بلالؓ کا یوم وِصال منا یا گیا۔ حضرت بلالؓ، آنحضرت کے صِرف موذن ہی نہیں، بلکہ خازن، عصا بردار ، ذاتی خادم تھے اور آنحضرت کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے ۔ موصوف ؓمکّہ مکرمہ کے ایک کافر امیّہ بن خلف کے غُلام تھے، جب ابن خلف کو علم ہُوا کہ حضرت بلالؓ نے اسلام قبول کیا تو اُس نے مسلمان بلالِ حبشیؓ کو بہت اذیتیں پہنچائیں۔ 
پھر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے حضرت بلالؓ کو امیّہ ابن خلف سے ،خرید کر آزاد کِیا اور حضرتِ بلالؓ، رحمتہ اُللعالمین کے غلام اور عاشقِ رسول بھی بن گئے ۔پھر آپ ؓ کو اکثر جلیل اُلقدر صحابہ ” سیّدنا بلالؓ ! “ کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔ پیغمبرِ انسانیت کے وِصال کے بعد ، حضرت بلالؓ نے موذن کا منصب چھوڑ دِیا تھا ۔ سیّد اُلنساءحضرت فاطمة اُلزہرا ؓ،نے حضرت بلالؓ سے اذان کی فرمائش کہلا بھیجی تو، آپؓ نے اذان کہی تو ، سیّد اُلنساءؓ بے ہوش ہوگئی تھیں ۔
” حضرت بلال ؓ / غوث اُلاعظم !“
 غوث اُلاعظم سیّد شیخ عبداُلقادر جیلانی / گیلانی نے اپنے ایک شعر میں حضرت بلالؓ کی شان بیان کرتے ہُوئے کہا تھا / ہے کہ ....
”حورعین، خال سیہ زد، برزخ ازرنگ بلالؓ!
از حبش بنگرچہ، خوش مشاطہ کردہ ظہور!“
یعنی۔ ” حسین اور موٹی آنکھوں والی حور نے حضرت بلال ؓ کے سیاہ رنگ سے چہرے پر تل بنایا ہے ۔ دیکھو تو سہی کہ حبش سے کتنی اچھی اور با ہنر مشاطہ کا ظہور ہوا ہے! “ ۔ علاّمہ اقبال نے اپنی فارسی نظم ”دُعا “ میں رسولِ مقبول سے عرض کِیا کہ .... 
از مُقّدر شِکوہ ہا، دَاریم ما!
نرخِ تو بالاﺅ، نا داریم ما!
از تہی دَستاں، رُخِ زیبا، مپوش!
عشقِ سلمان ؓ و بلالؓ ، ارزاں فروش!
یعنی۔ ” اے محبوبِ ربّ اُلعالمین! ہمیں اپنے مقّدر سے شکوہ ہے کہ آپ کا عشق بہت قیمتی ہے لیکن ،ہم نادار ، مُفلس ہیں۔ آپ ہم سے اپنا خوبصورت چہرہ نہ چھپائیں! اور عشقِ سلمان ؓ(فارسی) اور بلالؓ کی طرح ہمیں آسانی سے اپنے عشق کی سہولت بخش دیں “۔
معزز قارئین !۔ اُستاد شاعر غلام علی ہمدانی مصحفی حضرت بلال حبشیؓ کے بارے فرماتے ہیں کہ ....
”خوش لہجہ گر غلط بھی کہے کچھ تو ہو صحیح! 
تعریف کی نبی نے اذان بلال ؓ کی!
اُستاد شاعر محمد ابراہیم ذوق نے فرمایا کہ ....
” سنتے ہیں جاں نثاروں سے جب تیرا ذکر خیر! 
گویا اذاں کو سنتے ہیں منھ سے بلال ؓ کے!“ 
استاد شاعر ریاض البحر کاانداز یہ تھا / ہے کہ ....
” جب خال سرمہ بینی محبوب پر بنا!
گلدستے پر بلال ؓ برائے اذاں گیا!“
بقول اُستاد شاعر الماس درخشاں .... 
” تو ہے جیسا اس خم و چم کا کوئی گلرو نہیں! 
قوس و شمشیر و بلال ؓ و خنجر و محراب کیا! 
معزز قارئین ! دسمبر2007ءمیں، مَیں نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی شان میں پنجابی زبان میں ایک نعت لکھی تھی جس میں حضرت بلال ؓ حبشی کا بھی تذکرہ کِیا تھا ، نعت کے تین بند یوں ہیں ....
سَرچشمہ، حُسن و جمال، دا!
کِسے ڈِٹھّا نہ، اوس دے نال دا!
ربّ گھلّیا، نبی، کمال دا!
مَیں غُلام، اوس دی، آلؓ دا!

بُوہا عِلم دا، تے مہابلی!
اوہدا جانِشین، علیؓ وَلی!
جیہڑا ، ڈِگدیاں نُوں، سنبھال دا!
مَیں غُلام، اوس دی ، آلؓ دا!
اوہدے نانویں، میری زندگی!
اوہدا عِشق، میری بندگی!
پِھراں لبھّدا رَستہ بلالؓ دا!
مَیں غُلام، اوس دی، آلؓ دا!
” خُلد آشیانی محترمہ نیّر محمود!“
معزز قارئین!۔ 1973ءسے میرے تعلق دار اور 1992ءسے میرے عزیز دوست سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات و صحت ، سیّد انور محمود گیلانی کی اہلیہ اُردو، پنجابی کی نامور شاعرہ، ادیبہ (میری بھابھی/ بہن) نیرّ محمود صاحبہ، (20 جون 2020ءکو خُلد آشیانی ہو گئیں) موصوفہ کا میر ی اہلیہ مرحومہ، نجمہ اثر چوہان اور میرے بیٹوں ، بیٹیوں سے تعلق خاطر تھا ، قبل ازیں 16 اگست 2009ءکو ، جب سیّد انور محمود صاحب گیلانی اور بیگم نیرّ محمود کے بیٹے سیّد بلال محمود کی شادی، بیگم و ائیر کموڈور مسعود اختر کی بیٹی عنبر سے طے پائی تو، کچھ دِن پہلے ”بھابھی / بہن “ نیرّ محمود نے مجھ سے سیّد بلال کا سہرا لکھنے کی فرمائش کی ۔ 
 اِس سے قبل میرے چار بیٹوں کی شادیاں ہو ئیں لیکن مَیں نے اپنے کسی بیٹے کی شادی پر اُس کا سہرا نہیں لکھا لیکن، مَیں نے سیّد بلال کا پنجابی زبان میں سہرا لِکھا، اُسے فریم کرایا اور اپنے بیٹے شہباز علی چوہان اور بہو عنبرین کو ساتھ لے کر سیّد انور محمود کے گھر گیا ، اُس وقت واشنگٹن میں "Settle" سیّد انور محمود کی بیٹی مدیحہ اور داماد کاشف بھی وہاں موجود تھے ۔ بھابھی / بہن نیرّ محمود صاحبہ کی فرمائش پر مَیں نے وہ سہرا پڑھا تو ، دونوں میاں بیوی آبدیدہ ہوگئے۔ بھابھی نیرّ محمود نے میرے سر پر وار کر پانچ ہزار روپے میرا صدقہ بھجوایا۔ معزز قارئین ! سیّد بلال کے سہرے کے دو بند پیش کر رہا ہوں ....
’ ’ مَیں منگتا علیؓ لجّ بال دا، جی!
مَیتھے سایہ، نبی دِی آل دا، جی!
ول ّ آﺅندا، نئیں قِیل و قال دا، جی!
سہرا لِکھاں مَیں، سیّد بلال دا، جی!
بلخی سیّداں تے، گِیلا نِیاں دا !
وارث ، وَلیاں، قُطباں، نُورانیاںؒ دا !
نیئر، انور محمود، دے لعل دا، جی !
سہرا لِکھاں مَیں، سیّد بلال دا، جی!“ 
20 محرم اُلحرام /30 ستمبر2020ءکو مَیں نے پہلی بار برادرم سیّد انور محمود صاحب سے پوچھا کہ ”سیّد بھائی آپ نجیب اُلطرفین سیّد ہیں ،پھر بھی آپ نے اپنے بیٹے کا نام بلال رکھا ؟ تو، برادرم سیّد انور محمود صاحب نے مجھے بتایا کہ ”بھائی اثر چوہان! میری بیگم (اب مرحومہ ) تو بیٹے کا نام سرمد رکھنا چاہتی تھیں لیکن، میری بہنوں کی فرمائش پر اُس کا نام بلال رکھا گیا ‘ ‘۔
 معزز قارئین !۔ کتنے خوش ہُوئے ہوں گے حضرت غوث اُلاعظم ؒ، سیّد بلالؓ کے نام پریہ نام ؟۔ 

ای پیپر دی نیشن