گزشتہ برس جون کی 18تاریخ کو کینیڈا میں بھارتی نڑاد سکھ شہری اور مغربی ممالک میں خالصتان تحریک کے متحرک و معروف سکھ لیڈر ہر دیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت سرکار اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کے برائے راست ملوث ہونے کے حوالے سے کینیڈا، برطانیہ اور امریکی خفیہ اداروں کو حاصل ہونے والے ثبوتوں کو لے کر مندرجہ بالا تینوں ملکوں کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔ نجر کے قتل میںملوث قراردے کر کینیڈا سرکار کی طرف سے بھارتی ہائی کمیشن میں سفارت کاروںکے روپ میں تعینات را کے چار افسران کو کینیڈاسے نکال دیے جانے پر بھارت سرکار نے جوابی ردعمل میں دہلی سے کینیڈا کے چند سفارتکاروں کو واپس کینیڈا بجھوانے پر ہی اکتفا نہ کیابلکہ انتہائی غیرمہذب انداز میں کینیڈا کو دھمکیاں دیتے ہوئے عالمی اخلاقی و سفارتی اقدار کی دھجیاں بھی ا±ڑائیں۔ امریکہ نے بھارتی ہٹ دھرمی اور کینیڈا سے غیر مناسب رویہ اپنانے پر بھارت کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکی وزارت خارجہ کے اس بیان نے بھارت میں بھونچال کی سی کیفیت پیداکردی تھی جس میں امریکی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ہر دیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد را امریکہ میں بھارتی نڑاد سکھ شہری اور” سکھ فارجسٹس“ نامی تنظیم کے امریکہ میں سربراہ گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس منصوبہ پر عملدرآمد کو روکنے کیلئے امریکہ نے بھارت کو خبردار کیا اور ساتھ ہی مطالبہ کردیا کہ بھارت سرکار ہر دیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث افراد کوکینیڈاکے حوالے کرے، جہاں کینیڈاکی پولیس نجر کے قتل پر عملدرآمداور اس میں سہولت کاری کرنے والے تین بھارتی نڑاد شہریوں کرن پربت سنگھ، کمل پریت سنگھ اور کرن برار کو گرفتار کر کے ان سے بہت کچھ اگلواچکی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے بھارت سرکار سے دو ٹوک الفاظ میں مطالبہ کیا کہ وہ کینیڈا سرکار کے ساتھ نجر کے قتل کی تفتیش میں معاونت کرنے کے علاوہ امریکی شہری پنوں سنگھ کے قتل کی سازش تیار کرنے والے عناصر کو بھی امریکہ کے حوالے کرے۔ یہ ایک انتہائی غیر معمولی صورتحال تھی۔ امریکی میڈیا میں بھارت کےخلاف اس کے ملک سے باہر ٹارگٹ کلنگ کو دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے بھارت کو لگام ڈالنے کے حوالے سے مضامین شائع ہورہے تھے۔ اسی اثناءمیں برطانوی اخبار نے اپنی رپورٹ میں بھارت کی طرف سے پاکستان میں قتل کرائے جانے والے افراد کی شناخت اور بھارت کی ان سے دشمنی کی وجوہات کو موضوع بناکر بھارت کے خلاف صورتحال کو مزید گھمبیر کردیا۔ صورت حال یہ ہوگئی کہ امریکی ، برطانیہ میڈیا اور کینیڈاکو سفارتی سطح پر جواب دینے کی بجائے بھارتی وزراءنے پاکستان میں را کے ہاتھوں مارے جانےوالے افراد کو بھارت کی پاکستان کے خلاف بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے فلمی طرز کی بڑھکیں مارنا شروع کردیں۔ اس پر ہمارے الیکٹرانک میڈیا اور پاکستان کی وزارت خارجہ نے یہ کہتے ہوئے بھارت کو جواب دینے سے گریز کیا کہ بھارت میں انتخابات کا ماحول ہے۔ اسی لیے بھارت سرکار کے بیانات کو سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔حالانکہ یہی موقع تھا جب پاکستان کی طرف سے بھارت کو منہ توڑ جواب دیاجانا چاہیے تھا اور پاکستان میں قتل کرائے گئے افراد سے متعلق بھارتی اقرار کو بنیادبناکر یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں بھی لے جانا چاہیے تھا،ساتھ ہی بھارت سے مطالبہ کیاجاتا کہ وہ متعدد افراد کے قتل میں ملوث بھارتیوںکو قانون کی گرفت میں لائے یا پاکستان کے حوالے کرے جبکہ امریکہ اور کینڈا بھارت سے اس طرح کا مطالبہ کرچکے تھے۔توپھر اچانک ایسا کیا ہوگیا ہے کہ کچھ امریکی اراکین کا نگرس کے دل میںہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور پنوں سنگھ کے قتل کی منصوبہ بندی میں ملوث بھارت کیلئے محبت اس انداز سے جاگی ہے کہ وہ پاکستان اور چین کےخلاف بھارت کے حق میں امریکی سینٹ میں بل پیش کرنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ بل 26جولائی 2024کو امریکی سینٹ میں جمع کراتے وقت مطالبہ کیاگیاکہ مذکورہ بل پر فوری ابتدائی رائے شماری کی ضرورت ہے تاہم اس پر مزید کاروائی انتخابات کے بعداقتدار میں آنےوالی نئی حکومت کے دور میں کی جاسکتی ہے۔ بل جسے "US India Defence Cooperation Act" کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں مطالبہ کیا گیا کہ چین کے جنوبی اشیاءمیں بڑھتے ہوئے اثررسوخ اور پاکستان کی کی طرف سے بھارت کو در پیش خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے نمٹنے کیلئے بھارت کو امریکی مدد کی ضرورت ہے۔ بل میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ بھارت امریکہ کی طرف سے اسرائیل ،جنوبی کوریا، جاپان اور نیٹو جیسے برتاو کا مستحق ہے۔ بل میں یہ مطالبہ بھی شامل ہے کہ اگر پاکستان کی طرف سے بھارت میں دہشت گردی جیسے اقدامات کی تصدیق ہوتی ہے تو پھر پاکستان کو امریکہ کی طرف سے ملنے والی امداد کا روکے جانا اور امریکی کانگرس کو اس بابت اطلاع کی ضرورت ہے۔بل میں بھارت کے ساتھ امریکہ کے اسٹرٹیجک سفارتی، اقتصادی اور فوجی تعلقات میں اضافے کی تجویز بھی شامل ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ مذکورہ بل کے امریکی سینٹ میں پیش کیے جانے سے چند دن قبل 9جولائی کو بھارتی وزیراعظم نریند ر مودی کے روسی دورے پر امریکی کانگرس کی کمیٹی برائے بجٹ نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے امریکہ کو مایوس کیا ہے۔ اس حوالے سے کانگرس کی بجٹ کمیٹی نے امریکی انڈر سیکریٹری ڈونلڈ لو سے بہت سخت سوالات کیے۔ خاص طور پر نریندر مودی کے روس کے صدر سے ملاقات کے دن روس کی طر ف سے یوکرائن میں داغے گئے میزائلوںسے متعلق بھی سوالات کیے گئے۔ ڈونلڈلو نے بھارت کی صفائیاں دینے کی کوشش کی جیسے کانگریس کی کمیٹی نے مسترد کریا۔ یادرہے کانگریس کی اسی بجٹ کمیٹی کے روبرو سماعت میں ڈونلڈ لو نے کانگرس کو بتایا تھا کہ پاکستان کا چین پر انحصار کم کرنے کیلئے پاکستان کی مالی امداد کا سلسلہ جاری ہے۔ کانگریس کی بجٹ کمیٹی کی طرف سے نریندر مودی کے دورہ روس پر کئے گئے اعتراض کو بھارت نے بڑی رعونت سے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ بھارت دنیا میں تعلقات کے حوالے سے آزاد اور خود مختار ہے۔ توکیا پھر اسی کے ردعمل میں پاکستان و چین کے خلاف بھارتی مفادات کو لے کر بل کیوں پیش کیا گیا ہے؟ بعض امریکی مبصرین کے مطابق اس بل کی امریکی کانگرس میں منظوری کے امکانات صفرہیں۔ اسکے باوجود مذکورہ بل پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہے۔ جس کا نتیجہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے پاکستان کو دھمکیوں کی صورت میںسامنے آچکا ہے۔ کیونکہ پاکستان و چین کےخلاف امریکی سینیٹ میں پیش کیے گئے بل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ سمیت دیگر کالعدم دہشت گرد جماعتوں نے دوبارہ محفوظ پناہ گاہیں بنانا شروع کردی ہیں۔ مذکورہ بل میں انکے خلاف موثر کارروائی کی شرط کو امریکی امداد سے مشروط کیا جانا ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ بھارت کو ساتھ ملا کر خطے میں دوسرا کوئی کھیل کھیلنے کا ارادہ رکھتا ہے۔