ایران نے پاسداران انقلاب کے مرکز تہران میں فلسطینی حریت پسندوں کی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر ایران میں تین روزہ سوگ بھی منایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب حماس نے ہانیہ کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اسماعیل ہانیہ کو یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا ہے۔ حماس کی جانب سے بھی اپنے قائد کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا گیا۔ اسماعیل ہانیہ ایران کے نومنتخب صدر مسعود بز شکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے ایران آئے تھے اور تہران میں ایرانی پاسداران انقلاب کے مرکزی دفتر کے قریب ایک بلڈنگ میں مقیم تھے۔ وہ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے بعد اپنی اقامت گاہ پر ہی آگئے جہاں بدھ کی علی الصبح گائیڈڈ میزائل فائر ہوا جس میں وہ شدید زخمی ہوئے اور زخموں سے جانبر نہ ہو سکے۔ گزشتہ سال سات اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت میں اسماعیل ہانیہ کے 60 سے زائد قریبی عزیز بشمول ان کے بچے اور پوتے شہید ہو چکے ہیں۔ ہانیہ قطر میں مقیم تھے اور غزہ میں عارضی جنگ بندی کیلئے امریکی اور اسرائیلی حکام ان سے رابطے میں تھے جبکہ وہ نومنتخب ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے قطر ہی سے تہران آئے۔ اس تقریب میں 70 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جن میں تاجکستان کے صدر امام علی رحمان اور حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے علاوہ اسلامی جہاد کے زیاد الخلیح بھی شامل تھے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسماعیل ہانیہ کی نماز جنازہ جمعرات کے روز تہران میں ہی ادا کی گئی جس کے بعد انکی میت قطر کے دارالحکومت دوحہ روانہ کردی گئی جہاں دوبارہ نماز جنازہ کے بعد انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔ پاکستان سمیت متعدد ممالک میں اسماعیل ہانیہ کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔ میزائل حملے میں حماس کے سربراہ اور سابق وزیراعظم فلسطین اسماعیل ہانیہ کی میزائل حملے میں شہادت پر دنیا بھر میں بالخصوص مسلم دنیا میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے بالخصوص ایران کے دارالحکومت میں اس وحشیانہ اقدام کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرے کی گھنٹی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ حماس کے سینئر لیڈر سامی ابوزیری نے گزشتہ روز خبر رساں ایجنسی رائٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہانیہ کے قتل سے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گا اور اب مقبوضہ بیت المقدس کو آزاد کرانے کیلئے کھلی جنگ چھڑے گی جس کیلئے حماس کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔ ایرانی پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے بھی گزشتہ روز بیان جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ میزائل حملے میں ہانیہ کا ایک محافظ بھی شہید ہوا ہے البتہ حملے کی وجوہات جاننے کیلئے تحقیقات جاری ہیں۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہانیہ کے قتل کا بدلہ لینا تہران کا فرض ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق آیت اللہ نے کہا کہ اسرائیل نے اپنے لئے سخت سزا کی بنیاد فراہم کی ہے اور ایران اپنے ملک کے اندر ہونیوالے ہانیہ کے قتل کا بدلہ لینا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر کے بقول مجرم اور دہشت گرد صہیونی حکومت نے ہمارے گھر میں ہمارے مہمان کو شہید کیا اور ہمیں سوگوار کیا۔ اسماعیل ہانیہ نے ایک قابل عزت راہ میں سالوں تک جان داﺅر لگا کر جدوجہد کی اور شہادت کیلئے ہمیشہ تیار رہے جبکہ انہوں نے اپنے لوگ اور بچے بھی اس راہ پر قربان کئے۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہانیہ پر میزائل حملے کی تحقیقات جلد سامنے لائیں گے۔ اسی طرح فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے بھی اسماعیل ہانیہ کے بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ ایران اور فلسطین کے علاوہ پاکستان‘ ترکی‘ قطر‘ روس‘ جرمنی اور چین نے بھی اسماعیل ہانیہ کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ اب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اور عدم استحکام میں مزید اضافہ ہوگا۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کے بقول ہانیہ کے قتل کا مقصد فلسطینیوں کی طاقت کو توڑنا ہے لیکن صہیونی بربریت اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے گی۔ جرمن وزیر خارجہ الینا لینا بیرک بوک کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال اس وقت انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے اس لئے ایران سمیت مشرق وسطیٰ کے تمام فریق کشیدگی کو مزید بڑھانے سے روکیں۔ ایرانی صدر مسعود بزشکیان نے اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ایران اپنے دکھوں اور خوشیوں میں شریک قابل فخر ساتھی اور فلسطینی مزاحمت کے بہادر رہنما‘ القدس کے شہید اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا ماتم کر رہا ہے۔ کل میں نے اس فاتح رہنما کے ساتھ ہاتھ بلند کیا تھا اور آج میں انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر دفن کررہا ہوں۔ اب مزاحمت اور مظلوموں کے دفاع کا راستہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگا۔ ایران کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل خطے کو مزید کشیدگی اور افراتفری کی جانب دھکیل رہا ہے۔ اسی طرح امارات اسلامیہ افغانستان کی جانب سے بھی ہانیہ کی شہادت پر بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ امارات اسلامیہ فلسطین کی مقدس سرزمین کے دفاع کیلئے حماس کی جدوجہد کو اسلامی اور انسانی فریضہ سمجھتی ہے او رغاصب صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم کی شدید مذمت کرتی ہے۔ ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کرے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ حکم انہوں نے نیشنل سکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں دیا۔
اس امر پر تو اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کی میزائل حملے میں شہادت سے اب مشرق وسطیٰ‘ عرب ریاستوں‘ جنوبی ایشیاءاور وسطی ایشیا سمیت پورا خطہ جنگ کے خطرات کی لپیٹ میں آکر مکمل غیرمحفوظ ہو چکا ہے۔ یہ کشیدہ حالات اس سوال کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کہ اسماعیل ہانیہ کو ایران کے صدر کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر تہران میں ہی کیوں نشانہ بنایا گیا جبکہ وہ ایک عرصے سے قطر میں مقیم تھے اور اسرائیل کو وہاں انکے ٹھکانے کا بھی علم تھا۔ اس تناظر میں یہ سوال بھی زیرگردش ہے کہ اسرائیل کے پاس ایران تک مخصوص ٹھکانے پر مار کرنے والا میزائل سسٹم موجود ہے یا یہ میزائل تہران کے قریب سے ہی چلایا گیا۔ اس حوالے سے ایران کے دفاعی نظام پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں اور ہانیہ کے مخصوص ٹھکانے پر میزائل حملے سے ایران کے دفاعی نظام کو چیلنج کرنے سے ہی تعبیر کیا جارہا ہے جس نے دمشق میں ایران کے سفارت خانہ اور تنصیبات پر اسرائیلی حملے کا اسرائیل کے اندر جا کر مسکت جواب دیا تھا۔
اگرچہ اسرائیل نے ابھی باضابطہ طور پر اسماعیل ہانیہ پر میزائل حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم غزہ جنگ کے تناظر میں اسرائیل اور ایران کے مابین جاری کشیدگی کی بنیاد پر ہانیہ پر میزائل حملے کا کھرا اسرائیل کی جانب ہی نکلتا نظر آرہا ہے جس پر مسلم دنیا اور خطے کے دوسرے ممالک کی جانب سے اسرائیل کیخلاف غم و غصہ کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ اگر ہانیہ کو شہید کرکے "اسرائیل نے ایران کی دفاعی صلاحیتوں کو چیلنج کیا ہے جس پر ایران نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا بھی اعلان کر دیا ہے تو یہ بادی النظر میں علاقائی اور عالمی امن تاراج کرنے کی ہی سازش ہے جبکہ اس سے مسلم دنیا کو مصلحتوں کے لبادے اتار کر کیخلاف باہم متحد ہونے کا موقع بھی مل گیا ہے۔ ترکیہ کی جانب سے پہلے ہی فلسطینیوں کے دفاع کیلئے اپنی افواج بھجوانے کا عندیہ دیا جا چکا ہے جبکہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی گزشتہ روز ایک قرارداد منظور کرکے مسلم دنیا کی قیادت پر اسرائیل کیخلاف مشترکہ حکمت عملی طے کرنے پر زور دیا ہے۔ اب ایران اور فلسطین کی جانب سے اسرائیل سے عملی طور پر بدلہ لینے کا اعلان کیا گیا ہے تو یہ صورتحال اقوام عالم کو تیسری عالمی جنگ کی طرف ہی دھکیلتی نظر آرہی ہے چنانچہ آنیوالا وقت انسانی تباہی کا الارم بجاتا نظر آرہا ہے۔ مسلم دنیا کیلئے تویقیناً اسلام کی نشاة ثانیہ کے احیاءکا موقع پیدا ہو رہا ہے جس کا ذمہ دار مسلم دنیا کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا خواب دیکھنے والا امریکہ‘ اسرائیل اور انکی ساتھی دوسری الحادی قوتیں ہیں جبکہ ممکنہ عالمی جنگ کے نتیجہ میں اس کرہ ارض پر جو تباہی ہوگی‘ اسکی ذمہ داری بھی ان الحادی قوتوں پر ہی عائد ہوگی۔