محمد عثمان رضوی
عالم باعمل یادگار اسلاف قاضی ابن قاضی حضرت علامہ مولانا قاضی محمد مظفر اقبال رضویؒ 1932 میں اندرون شھر بھاٹی گیٹ لاہور محلہ ستھاں میں پیدا ہوئے۔آپ نے ایک ایسے بابرکت اور پرنور ماحول میں تربیت پائی جہاں ہر وقت تلاوت پاک۔ درس احادیث۔اور مسائل تصوف کی صدائیں بلند رہتی ہر وقت اس دور کے علماء اکرام صوفیاء عظام حکماء کا اجتماع آپ کے والد گرامی حضور فقیہ زماں خلفیہ اعلی حضرت (مصنف فتاوی غلامیہ قادریہ ،جسے فتاوی رضویہ کی تلخیص کہا جائے تو درست ہوگا) مفتی غلام جان ھزاروی سے اکتساب فیض کے لیے جمع رہتے۔اسی پاکیزہ تربیت کا اثر آگے آپ کی پوری زندگی میں نمایاں رہا۔آپ کا دور طالب علمی اپنے والد گرامی حضور مفتی صاحب سے شروع ہوتا ھے جو آگے بڑھ کر گولڑہ شریف کی مقدس سرزمیں سے ہوتا ہوا بندیال شریف اور مختلف استاذہ اکرام سے فیض یاب ہوتے ہوئے محدث اعظم پاکستان حضرت علامہ مولانا سردار احمد تک درس حدیث کے لیے لے جاتا ھے۔
آپ کے استاذہ اکرام میں اس دور کے معروف علماء اکرام جیسے کہ مفتی غلام جان ھزاروی،علامہ سید احمد برکاتی سید صاحب علامہ ابو الحسنات قادری، علامہ عطاء محمد بندیالوی، علامہ سردار احمد محدث پاکستان کے ساتھ ساتھ بندیال شریف اور گولڑہ شریف کے جید علماء اکرام کے نام آتے ھیں۔شریعت مطہرہ کے علوم سے پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ آپ نے روحانی علوم کی تربیت اپنے والد گرامی مفتی غلام جان ھزاروی سے لے کر شیخ اسلام خواجہ قمر الدین سیالوی تک اور وہاں سے خانوادہ اعلی حضرت بریلی شریف میں حضور مفتی اعظم ھند حضرت علامہ مصطفے رضا خان کے قدموں میں حاضر ہوکر مکمل کی۔ خانوادہ بریلی شریف کی جانب سے ایک نہیں دو دو خلافتوں سے آپ کے مقدس گھرانے کو نوازا گیا۔آپ کے والد گرامی کو اعلی حضرت امام احمد رضا خاں سے چار سال تک بریلی شریف میں ان کے مدرسے منظر اسلام میں پڑھنے کا موقع میسر آیا اور آپ کی دستار بندی خود اعلی حضرت امام احمد رضا خاں نے اپنے ہاتھوں سے فرمائی اور خلافت قادریہ رضویہ کی دولت سے مالا مال فرمایا۔ اسی طرح صاحزادے قاضی محمد مظفر اقبال رضوی مفتی تقدس علی خان صاحب کے ہمراہ بریلی شریف حاضر خدمت ہوئے تو جانشین اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ھند علامہ مصطفے رضا خان نے خلافت قادریہ رضویہ کی دولت سے مشرف فرمایا۔
آپ میں خوف خدا کا یہ عالم تھا تا دم حیات آپ پیر مریدی سے اجتناب فرماتے رھے۔آپ کے تقوی اور شرعی امور پر پابندی کا انذازہ اس بات سے باخوبی لگایا جاسکتا ھے کہ جب کوئی اجنبی آپ کے حضور کوئی ھدیہ وغیرہ پیش کرتا اپ سب سے پہلے اس سے تحقیق کرتے اگر تسلی ہوجاتی تو تب احتیاط کے ساتھ قبول فرماتے ورنہ انکار فرما دیتے۔ جب تک تعلیمات اعلی حضرت سے کسی کے موقف کی تائید یا تردید نہ دیکھ لیتے اپنی رائے یا موقف دینے سے اجتناب فرماتے یہ ھی وجہ ھے تا دم حیات تصویر کشی لاؤڈ اسپیکر پر نماز پڑھنے اور پڑھانے سے اجتناب فرماتے رھے رویت ہلال کے مسئلہ پر بھی آپ کا موقف تعلیمات اعلی حضرت کے عین مطابق رہا تا دم حیات رویت چاند پر اعتبار کرتے جب تک رمضان اور شوال کے چاند کی رویت یا شرعی گواہی موصول نہ ہوجاتی روزہ رکھنے اور چھوڑنے میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے چاھیے حکومت وقت کا فیصلہ اسکے برعکس ہی کیوں نہ ہوتا یہ ہی وجہ ہے آپ کی سب سے بڑی کرامت شریعت کی پاسداری تھی فقیر حقیر کو بیس سال تک قاضی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں نیاز مندی رہی میں کبھی نماز فجر تک بھی قضاء ہوتے نہیں دیکھی۔قبلہ قاضی صاحب صیح معنوں میں یادگار اسلاف تھے اپنا موقف دینے سے پہلے مطالعہ کرنا تحقیق کرنا ان کی زندگی کا لازم حصہ تھا۔حالات حاضرہ پر نظر رکھنا اور حکمران طبقے کی اصلاح ہر فارم پر کرنا ان کی عادت ثانیہ تھا۔امر بالمعروف کرنا اور بروقت اصلاح نہ کرنا وہ حرام سمجھتے تھے ۔اپنی عمر کے آخری ایام میں چھیاسی سال کی عمر میں ایک ماہ کوٹ لکھپت جیل کی کال کوٹھی میں پابند سلاسل رھے لیکن اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔
آپ نے ہر دور میں نظام مصطفے اور عقیدہ ختم نبوت کے لیے اٹھنے والی ہر تحریک کا ساتھ دیا بلکہ دامے درمے سخنے مدد فرماتے رھے۔تحریک پاکستان ہو یا تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفٰے آپ جمعیت علماء پاکستان کے عروج کے وقت ضلع لاہور کے صدر رہے اور بعد ازاں صوبہ پنجاب کے بھی نائب صدر مقرر ہوئے آپ نے شیخ اسلام خواجہ قمرالدین سیالوی صاحب کے ساتھ طویل عرصہ جمعیت علماء پاکستان میں خدمت سرانجام دی اورہر پلیٹ فارم پر جمعیت کی ترجمانی فرماتے رھے۔ دعوت اسلامی ہو یا سنی تحریک انجمن فدایان ختم نبوت ہو یا آج کے زمانے کی معروف سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان سب اپ کے تجربات سے مستفیض ہوتے رھے علامہ ابو الحسنات قادری سے کر علامہ عبدالحامد بدایونی تک شییخ اسلام خواجہ قمر الدین سیالوی سے لے کر مولانا شاہ احمد نورانی تک مولانا عبدالستار خان نیازی سے کر حکیم امت حکیم محمد موسی امرتسری تک مولانا سرفراز نعیمی شھید سے کر علامہ خادم حسین رضوی تک ہر دور کے قائدین کے ساتھ مل کر اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرتے رھے۔آج پورے ملک میں نورانی محافل روحانی محافل کے نام سے محرم الحرام میں اندرون ملک اور بیرون ملک جو محافل کا انعقاد ہورہا ھے اسکا سہرا بھی قاضی صاحب قبلہ کی طرف جاتا ھے آپ نے آج سے پچاس سال قبل اونچی مسجد شاہ عنایت قادری جہاں حضرت بابا بلھے شاہ صاحب حضرت شاہ عنایت قادری کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور اپنی روحانی منازل طے فرماتے رھے اس مسجد میں آپ نے نورانی محافل کے نام سے دس روزہ محافل کا انعقاد کیا جو سلسلہ آج پورے پاکستان میں پھیل چکا ہے۔
قاضی صاحب قبلہ کے ہاں شب و روز پورے پاکستان سے علماء اکرام تشریف لاتے رہتے جن میں سے چند اپ کے ہم مکتب تھے جب کہ اکثریت آپ کے عقیدت مند یا شاگرد ہوتے جن میں سے چند ایک نام بہت نمایاں ہے جن کی زیارت حقیر فقیر خود بیس سال کے دوران کرتا رہا۔ شارح بخاری علامہ غلام رسول فیصل آباد، مولانا غلام مہردین ، مفتی عبدالقیوم ھزاروی، علامہ عبدالحکیم شرف قادری، مفتی عبدالرشید سمندری، علامہ حاجی ابو داؤد صادق ، مفتی علی احمد سندھیلوی، مفتی گل احمد عتیقی، علامہ خادم حسین رضوی، ڈاکٹر سرفراز نعمی شہید مولانا سیلم قادری شہید علامہ محمد عباس قادری ، علامہ قاری کریم الدین کریمی ،پیرزاہ اقبال احمد فاروقی، علامہ اشرف سیالوی جیسے جید علماء اکرام کا آنا جانا مشاوراتیں کرنا روز کا معمول تھا۔یاد گار اسلاف قبلہ قاضی محمد مظفر اقبال رضوی اہلسنت کی پاکستان بنے کے بعد ستر سال جہدو جہد کا ایک اہم باب تھے ۔ یہ تاریخی اور علمی شخصیت 28 اگست 2019 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملی آپ کی نماز جنازہ برصیغر کے مالک حضور فیض عالم المعروف داتا صاحب کے احاطے میں ادا کی گئی، ھزاروں عقیدت مند نماز جنازہ میں شریک تھے ۔آپ کا مزار اقدس والد گرامی مفتی غلام جان ھزاروی کے پہلو میں مزارغازی علم الدین شہید سے چند قدم پہلے مرجع ء خلائق ھے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے وہ اپنے حبیب علیہ سلام اور کی آل پاک کے صدقے آپ کے درجات بلند فرمائے امین