مولاناقاری محمد سلما ن عثمانی
اللہ رب العزت نے سال کے بارہ مہینوں میں مختلف دنوں اورراتوں کی خاص اہمیت وفضیلت بیان کر کے ان کی خاص خاص برکات وخصوصیات بیان فرمائی ہیں قرآن حکیم میں ارشادباری تعالیٰ ہے۔’’بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اورزمین بنائے ان میں سے چارحرمت والے ہیں یہ سیدھادین ہے توان مہینوں میں اپنی جا ن پرظلم نہ کرواور مشرکوں سے ہروقت لڑوجیساوہ تم سے ہروقت لڑتے ہیں اورجان لوکہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔(سورۃ التوبہ )۔ماہ صفر کے متعلق ایک بہت سی توہمات اور بدشگونیاں اورخود ساختہ حل بھی بتائے جاتے ہیں،مثلاً اس ماہ میں شادی نہ کرنا،سفر نہ کرنا،کاروبار کا آغاز نہ کرنا۔اس ماہ کو مردوں پر بھاری سمجھنا اس کی تیرہ تاریخ کو منحوس سمجھنا وغیرہ وغیرہ، اس مہینے میں مختلف چیزیں پکا کر محلے میں بانٹنا کہ ہماری بلائیں ٹل جائیں یا دوسروں کی طرف چلی جائیں ۔لیکن دین اسلام میں ان تمام باتوں کی کوئی حیثیت نہیں۔بعض لوگ اس ماہِ صفر میں شادی بیاہ یا کوئی خوشی کا کام نہیں کرتے حالانکہ اس ماہِ صفر المظفر سن 7 ہجری میں حضور نبی کریمؐ نے ام المومنین حضرت سیدہ صفیہ ؓسے شادی فرمائی تھی۔بلکہ ماہِ صفر ہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھولے اور حضور نبی کریمؐ ؐاور آپ کے پیارے صحابہ کرام ؓ کو فتحِ خیبر سے نوازا(البدایہ و النہایہ)
عربی میں نحوست کیلئے لفظ طیرہ استعمال ہوتا ہے جو طیر سے نکلا ہے جس کے معنی پرندے کے ہیں۔اہل عرب چونکہ پرندے کے اڑانے سے فال لیتے تھے اسی لئے طائر بدفالی کیلئے استعمال ہونا لگا یعنی بدشگون لینا۔دین اسلام میں کوئی دن،مہینہ، جگہ یا انسان منحوس نہیں بلکہ دراصل وہ انسان کا اپنا طرزِ عمل،رویہ،اخلاق اور طریقہ ہوتا ہے جو اس کیلئے مختلف آزمائشوں کا سبب بن جاتا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ترجمہ!کوئی بھلائی جو تمہیں پہنچے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور کوئی برائی جو تمہیں پہنچے تو وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے(سورۃ النساء )ایسا شخص جو بدشگون(بدفالی) لیتا رہا اس کے بارے میں حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا جو کسی چیز سے بدفالی پکڑ کر اپنے مقصد سے لوٹ آیا اس نے شرک کیا۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اسکا کفارہ کیا ہو گا،ارشاد فرمایا!وہ کہے اے اللہ!تیری دی ہوئی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور تیری فال کے سوا کوئی فال نہیں اور تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں (مسند احمد)
وساوس اور توہمات سے شیطان انسان کو شرک میں مبتلا کر کے اس کے اعمال ضائع کرواتا ہے،یہ توہمات و بدشگونیاں انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہیں اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی ذات پر پختہ ایمان و توکل انسان کو جرأت،بہادری اور اعتماد دیتا ہے،اْسے جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ چنانچہ ان توہمات اور بدشگونیوں سے دل کو پاک وصاف رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھنا چاہیئے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا بدشگونی شرک ہے،بدشگونی شرک ہے،بدشگونی شرک ہے تین بار ارشاد فرمایا اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں مگر (اْسے وہم ہو جاتا ہے) لیکن اللہ تعالیٰ پر توکل کی وجہ سے اسے دور کر دیتا ہے(سنن ابی داؤد)حضرت سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا مرض کا لگ جانا،نحوست اور اْلّو اور صفر کچھ نہیں اور جذامی سے اس طرح بچو جس طرح شیر سے بچتے ہو۔(بخاری شریف) اور سنن ابی داؤد میں حضرت سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا! کوئی بیماری متعدی نہیں،نہ اْلّو کا نکلنا کچھ ہے،نہ کسی ستارے کی کوئی تاثیر ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔