حضرت امام علی ابن الحسینؓ زین العابدین

آغا سید حامد علی شاہ موسوی 
نواسہ رسول ؐامام حسین ؓنے شریعت محمدی کے تحفظ اور انسانی اقدار کی سربلندی کیلئے جو عظیم ترین قربانی پیش کی وہ نہ صرف دین اسلام کی بقا کا سامان کر گئی بلکہ پوری انسانیت کو ظلم و جبر کا مقابلہ کرنے کا سلیقہ سکھا گئی ۔داستان کربلا شہید نینوا امام عالی مقام، حضرت امام زین العابدین کے بغیر نامکمل ہے جنہوں نے سانحہ کربلا کے رونما ہونے کے بعدمقصد حسین ابن علی ؓ کی حفاظت کی اور کوفہ و شام میں اپنے خطبات کے ذریعے یزیدیت کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کیا اورمقصد شہادت حسینؓ کو اس انداز میں اجاگر کیا کہ ظلم و جبر کے ایوان میں زلزلہ طاری ہو گیا ۔اگر امام حسین کے بیمار فرزند امام زین العابدین ؓ اور حضرت زینبؓ کی جدوجہد نہ ہوتی تو یزید اپنی طاقت اور پروپیگنڈے سے مقصد شہادت حسین ؓ چھپانے میں کامیاب ہو جاتا۔
امام زین العابدین ؓ کا اسم گرامی علی بن حسین بن علی بن ابی طالبؓ ہے ۔کنیت ابو محمد اور مشہور القاب زین العابدین ،سید الساجدین ، عابداور سجاد ہیں۔ آپ نے 15جمادی الاول (بعض روایات 5شعبان )38ھجری کو مدینہ منورہ میں نواسہ رسول کونین امام حسین کے پاکیزہ گھرانے میں آنکھ کھولی ۔آپ کی والدہ گرامی حضرت شہر بانوتاریخ کی عظیم ترین خواتین میں سے ایک ہیں جو آخری ساسانی بادشاہ یزد گرد دوم کی بیٹی تھیں۔اس نسبت سے امام علی ابن الحسین کا ددھیال سرور کائنات پیغمبر اسلامؐ اور ننھیال نوشیرواں عادل سے تھا ۔( نو شیرواں وہ بادشاہ ہے کہ جس کے عہد میں پیدا ہونے پر خیر البشر آنحضور ؐ نے فخر کا اظہار فرمایا )۔امام زین العابدین کے عظیم نسب کے بارے میں ابوالاسود دوئلی اشعار کہتے ہیں کہ اس فرزند سے عالی نسب کوئی نہیں ہو سکتا جو نوشیرواں عادل اور سرور کائنات کے داداہاشم ؑ کی نسل سے ہو(اصول کافی)
آپ کی عبادت گزاری اور زہد و تقوی انتہا تک پہنچا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ آپ زین العابدین، سید الساجدین ،عابد اور سجاد کے لقب سے جانے پہچانے جاتے ہیں علامہ ابن حجر رقم طراز ہیں کہ آپ علم زہد اور عبادت میں نواسہ رسول امام حسین ؑ کی جیتی جاگتی تصویر تھے ۔(صواعق محرقہ ) امام زین العابدین نے ساری عمرمیں25 حج پاپیادہ کئے ۔
امام زین العابدین ؓاولاد رسول تھے آپ میں سیرت محمدیہ کا ہر پہلو جھلکتا تھا علامہ محمدابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ کوبرابھلاکہا، آپ نے فرمایابھائی میں نے توتیراکچھ نہیں بگاڑا،اگرکوئی حاجت رکھتاہے توبتاتاکہ میں پوری کروں،وہ شرمندہ ہوکرآپ کے اخلاق کاکلمہ پڑھنے لگا(مطالب السؤل)۔امام زین العابدین جب بھی کسی سواری پر سفر کرتے تھے تو کبھی آپ نے اپنے جاور کو چابک یا کوڑا نہیں مارا۔
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں،ایک شخص نے آپ کی برائی آپ کے منہ پرکی آپ نے اس سے بے توجہی برتی، اس نے مخاطب کرکرکے کہا،میں تم کوکہہ رہاہوں، آپ نے فرمایا،میں حکم خدا’’واعرض عن الجاہلین‘‘ جاہلوں کی بات کی پرواہ نہ کرو پرعمل کررہاہوں (صواعق محرقہ )کربلا کے دشت میں بھوک پیاس کی عظیم آزمائش برداشت کرنے والے حضرت امام زین العابدین ؓ مدینہ کے سینکڑوں غریب گھروں کی کفالت فرماتے ،آپ کااصول یہ تھاکہ راتوں کو جاگ کر بوریاں پشت پرلادکر گھروں میں اناج ،آٹا وغیرہ پہنچاتے تھے اوریہ سلسلہ آپ نے تاحیات جاری رکھا ۔جب امام شہید ہوئے تب الوگوں کوپتہ چلا کہ کون انہیں غذا پہنچایا کرتا تھا۔
امام زین العابدین خانوادہ نبوت کی عظیم ہستی ، حضرت علی ابن ابی طالبؓ کے پوتے تھے آپ کے خطبوں کی فصاحت بلاغت اور اثر آفرینی نے طاقت کے نشے میں مخمور یزیدیت کو زمیں بوس کردیا۔ جب حضرت امام زین العابدین ؓ اورخاندان رسالت ؐکی باعصمت خواتین جن کی ردائیں تک چھین لی گئی تھیں کے ہمراہ درباریزیدمیں داخل کئے گئے تو آپ نے انبیاء کی طرح شیریں زبان میں نہایت فصاحت وبلاغت کے ساتھ خطبہ ارشادفرمایا:
اے لوگو! تم سے جومجھے پہچانتاہے وہ توپہچانتاہی ہے، اورجونہیں پہچانتامیں اسے بتاتاہوں کہ میں کون ہوں؟ سنو، میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں، میں اس کافرزندہوں جس نے حج کئے ہیں اس کافر زندہوں جس نے طواف کعبہ کیاہے اورسعی کی ہے، میں پسرزمزم وصفاہوں، میں فرزندفاطمہ زہراہوں، میں اسکافرزند جس پس گردن سے ذبح کیاگیا، جس پرلوگوں نے پانی بندکردیا، میں محمدمصطفی ؐ کافرزندہوں، میں اسکا فرزند ہوں جو کربلا میںشہیدکیاگیا،میں اس کافرزندہوں جس کے انصارزمین میں آرام کی نیندسوگئے میں اسکا پسرہوں جس کے اہل حرم قیدکردئے گئے میں اس کافرزندہوں جس کے بچے بغیرجرم وخطاذبح کرڈالے گئے۔آج گویا تمام ملک یزیداوراس کے لشکرکاہوگیااورآل مصطفیؐیزید کی ادنی غلام ہوگئی ہے ۔ ۔ جب لوگوں نے امام زین العابدین کاکلام سناتوچینخ مارکررونے اورپیٹنے لگے یہ حال دیکھ کر یزیدگھبرااٹھاکہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑاہوجائے اس نے اس کے ردعمل میں فورا موذن کوحکم دیا(کہ اذان شروع کرکے) امام کے خطبہ کومنقطع کردے۔ 
ظلم جبر اور پابندیوں کے تاریک دور میں امام زین العابدین نے انبیاء کے اسلحہ ،دعائوں اور مناجات کے ذریعے تبلیغ کا راستہ اختیار کیا۔ اور پیغام توحید و رسالت کو عام کرتے رہے۔آپ اگرچہ گوشہ نشینی کی زندگی بسرفرمارہے تھے لیکن روحانی اقتدارآپ ہی کے پاس تھا تخت و تاج والے ایسے سچائی کے مراکز کو کہاں برداشت کرتے ہیں 25 محرم 
الحرام 95 ھ مطابق714 ء کو آپ کو زہر دے دیا گیا جس کے سبب آپ درجہ شہادت پرفائزہوگئے شہادت کے وقت امام زین العابدین57سال کے تھے ۔آپ کے فرزند امام محمدباقر نے آپکی نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ منورہ میں اپنے عم بزرگوار حضرت امام حسنؓ اور دادی خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا ؓکے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کردئیے گئے۔

ای پیپر دی نیشن