عقل کا ضرورت سے زیادہ غلام ہوتے ہوئے سازشی تھیوریوں سے مجھے شدید الجھن ہوتی ہے۔ کبھی کبھار مگر کچھ ایسے واقعات ہوجاتے ہیں جن پر غور کرتے ہوئے ’’سازش‘‘ ڈھونڈنے کو مجبور ہوجاتا ہوں۔ بدھ کی صبح سے بھی ایسی ہی الجھن میں مبتلا ہوں۔ اسرائیل نے جارحانہ دیدہ دلیری سے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارلحکومت کے ایک ’’محفوظ ترین‘‘ ریسٹ ہائوس میں منگل اور بدھ کی درمیانی رات ایک جدید تر میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا۔ جس ریسٹ ہائوس کو اسرائیلی میزائل نے نشانہ بنایا وہ ’’پاسدارانِ انقلاب‘‘ کے زیر انتظام ہے۔ پاسداران ایران ہی نہیں بلکہ عراق،لبنان، شام اور یمن کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں بھی اپنی ’’نظریاتی ریاست‘‘کوہر اعتبار سے ناقابل تسخیر بنانے کی کاوشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ دیگر ممالک میں موجود حلیفوں کی بدولت ایران لبنان کے ساحل سے خلیج عرب تک پھیلے وسیع وعریض خطے کے حوالے سے سیاسی ہی نہیں فوجی اعتبار سے بھی طاقت ور ترین ملک تصور ہوتا ہے۔ اس تناظر میں ایران نے جو اہمیت منوائی اسے اجاگر وبرقرار رکھنے میں پاسداران نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ حماس کے سربراہ کی شہادت کے ذریعے اسرائیل نے درحقیقت پاسداران کے قلب تک اپنی رسائی ثابت کی ہے۔ اس کے زیر انتظام ریسٹ ہائوس میں ہوا قتل پاسداران کے لئے اس تناظر میں نہایت خجالت وشرمندگی کا باعث ہے۔
اس امر پر غور کرتے ہوئے ذہن میں فطری طورپرسوال یہ اٹھتا کہ اگر اسرائیل واقعتا فقط اسماعیل ہنیہ ہی کی جان کے درپے تھا تو انہیں نشانہ بنانے کے لئے قطر پر توجہ کیوں نہیں دی گئی۔ حماس کے سربراہ گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ملک میں پناہ گزین تھے۔ ان کی وہاں قیام گاہ کا پتہ لگانا ناممکن نہیں تھا۔ وہاں مقیم ہوئے وہ اکثر غیر ملکی رہ نمائوں اور صحافیوں سے ملاقاتیں بھی کرتے رہے۔ ایران میں پاسداران کے مرکز تک رسائی کے حامل اسرائیل کو یقینا قطر میں بھی ان کے ٹھکانوں کا بخوبی علم ہوگا۔ حماس کے سربراہ کو مگر قطر میں نشانہ بنانے سے گریز سے کام لیا گیا۔
بنیادی وجہ مذکورہ گریز کی یہ ہوسکتی ہے کہ قطر کی بدولت اسرائیل ہی نہیں بلکہ اس کے امریکہ جیسے دوست بھی وہاں مقیم اسماعیل ہنیہ سے مذاکرات کے لئے روابط استوار کرتے تھے۔ گزشتہ کئی دنوں سے امریکہ مصر کی مدد کے ذریعے اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جاری جنگ میں ’’وقفے‘‘ کی کوشش کررہا تھا۔ خفیہ مذاکرات کے ذریعے اسرائیل کو اس امر پر مائل کیا جارہا تھا کہ وہ جنگ بندی کے وقفے کے دوران اسرائیل کی جیلوں میں قید حماس کے سرگرم کارکنوں کو ان یرغمالیوں کے بدلے رہا کردے جو 7 اکتوبر 2023ء کے روز حماس نے اسرائیل کے اندر گھس کر گرفتار کئے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگ بندی کے دوران غزہ کی پٹی میں خوردونوش کی اشیاء کے علاوہ ادویات کی فراہمی کے منصوبے بھی تھے۔ امید یہ بھی باندھی جارہی تھی کہ اگر عارضی جنگ بندی کا عرصہ طویل ہوجائے تو معاملات کامل جنگ بندی کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔
گزرے اتوار کے دن تک اسرائیل مختصر جنگ بندی کے حصول کی خاطر ہوئے مذاکرات میں حصہ لے رہا تھا۔ حالیہ مذاکرات اٹلی کے شہر روم میں ہورہے تھے۔ان کی معاونت کیلئے امریکی سی آئی اے کا سربراہ بھی اس شہر میں موجود تھا۔ سوال اٹھتا ہے کہ مذکورہ مذاکرات کے ہوتے ہوئے بھی اسرائیل نے حماس کے سربراہ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے میں اس حقیقت کو اپنے ذہن سے نکال نہیں پایا ہوں کہ 24جولائی کے دن اسرائیل کے وزیر اعظم نے امریکی پارلیمان سے خطاب کیا تھا۔ بائیڈن حکومت کے رویے سے وہ مطمئن نہیں۔ ٹرمپ کو اپنا دوست شمار کرتا ہے۔ اسے امید تھی کہ اگر بائیڈن نومبر کے صدارتی انتخاب میں امیدوار کی صورت میدان میں کھڑا رہا تو اس کا یار ٹرمپ بآسانی جیت جائے گا۔
بائیڈن نے مگر صدارتی انتخاب کی ریس میں حصہ نہ لینے کا اعلان کردیا۔ اس کی جگہ کملاہیرس ٹرمپ کے مقابلے میں طاقت ور امیدوار کی صورت ابھرتی نظر آئی۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے قیام امریکہ کے دوران اس نے غزہ میں جاری خونریزی کے بارے میں بھی فکرمندی کا اظہار کیا۔ محتاط زبان میں ہوا یہ اظہار بھی تاہم اسرائیلی وزیر اعظم کو پسند نہ آیا۔ وہ غالباََ یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ اگر ہیرس ٹرمپ کو شکست دے کر وائٹ ہا?س پہنچ گئی تو امریکہ اسرائیل کے ہر جارحانہ اقدام کا غیر مشروط انداز میں دفاع نہیں کرپائے گا۔
تہران میں پاسداران کے مرکز میں قائم ایک ریسٹ ہائوس کو جدید ترین میزائل کی زد میں لاکر اسماعیل ہنیہ کی ٹارگٹ کلنگ کا حتمی مقصد لہٰذا حماس کے سربراہ کا قتل ہی نظر نہیں آرہا۔ اس کا واضح مقصد ایران کو اشتعال دلانا بھی ہے۔ ایران اپنے دارلحکومت میں نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری کے چند گھنٹوں بعد ایک ’’محفوظ ترین‘‘ ریسٹ ہائوس میں ہوئے قتل کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ حماس کے سربراہ کی شہادت کے بعد وہ دنیا کو یہ دکھانے کو مجبو رہے کہ ایران اپنے دشمنوں کی ہر جارحانہ پیش قدمی کا فقط لفاظی سے نہیں بلکہ جدید ترین ہتھیاروں کی مدد سے بھی خاطر خواہ جواب دے سکتا ہے۔
مختصراََ حماس کے سربراہ کی تہران میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے اسرائیل نے ایران کو کھلی جنگ کا چیلنج دیا ہے۔ ایران اس پر آمادہ ہوگیا تو امریکہ غیر جانب داری دکھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس تناظر میں اگر کملا ہیرس نے تھوڑی نرمی دکھائی تو انتہائی ڈھٹائی سے اسرائیل کی ہر جارحیت کا دفاع کرتا ٹرمپ صدارتی انتخاب بآسانی جیت جائے گا۔
یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں ایران کے ساتھ اوبامہ انتظامیہ کی جانب سے ہوئے ایٹمی معاہدے کو یک طرفہ طورپر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔ ایران سے تعلقات معمول پر لانے کی کاوشوں کو رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے اس نے طاقتور عرب ملکوں سے تعلقات کو مضبوط تر بنانے پر توجہ دی۔ اس کی کوشش ہی سے چند عرب ملک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کو آمادہ ہوئے۔ سعودی عرب نے مگر اس ضمن میں عجلت نہ دکھائی۔ دریں اثناء ٹرمپ کی معیادِ صدارت ختم ہوگئی اور بائیڈن انتظامیہ بعداز کرونا معاشی مسائل سے نبردآزما ہونے اور روس -یوکرین جنگ کی وجہ سے تیل کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے کی تگ ودو میں مصروف ہوگئی۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ آئندہ صدارتی انتخاب سے قبل ایران کو اس کے ساتھ کھلی اور بھرپور جنگ کو اْکسایا جائے تاکہ ٹرمپ اور ہیرس واضح الفاظ میں اعلان کرسکیں کہ وہ ممکنہ جنگ میں کس کے ساتھ ہیں؟!