ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو بڑھ جاتا ہے

شاعری کی دنیا اور ہوتی ہے، سچائی کی اور…مصرعہ ملاحظہ فرمائیے:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے 
یہ شاعری ہے۔ سچائی کچھ یوں ہے: 
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو بڑھ جاتا ہے 
اور پھر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اسی شعر کا دوسرا مصرعہ کہتا ہے کہ خون ٹپکے گا تو جم جائے گا۔ سچائی کی دنیا یہ ہے کہ خون ٹپکتا ہے تو بہہ جاتا ہے یا بہا دیا جاتا ہے یا مٹی میں مل کر مٹی کا جزو بن جاتا ہے، مٹی ، کو زرخیزی عطا کرتا ہے۔ 
سچائی تاریخ میں ملتی ہے۔ اور تاریخ کی سچائی ہے کہ ظالم نہیں، مظلوم مٹتا ہے۔ تاریخ میں ماسوائے چند پیغمبروں کے اور خلفائے راشدین کی حکومت کے کوئی بھی نظامِ حکومت، عدل اور انصاف اور رحم دلی سے علاقہ نہیں رکھتا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جو بھی حکمران عدل کرے گا، اس کا اقتدار گھڑی بھر کا مہمان ہوتا ہے۔ حکومت اور عدل دو متضاد باتیں، عدل جہانگیری اور نوشیرواں عادل محض افسانے ہیں۔ ظلم تب ختم ہوتا ہے جب اس سے بڑا ظلم اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ 
حماس کے رہنما اسمعٰیل ہنیہ کی شہادت اشارہ ہے اس بات کا کہ ظلم بڑھ رہا ہے۔ غزہ میں جنگ اکتوبر شروع ہوئی تو بعض لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اسرائیل اب غزہ والوں کی نسل کشی یا نسلی صفائی کرے گا۔ عالمی مبصرین نے اسے اندیشہ ہائے دور دراز بتایا اور کہا کہ آٹھ دس ہزار شہری مار کر اسرائیل کا غصّہ ٹھنڈا ہو جائے گا یا امریکہ سے حکم آ جائے گا کہ چلو اب بس کرو۔ لیکن اب تین سو دن سے اوپر ہو گئے تو سب کو نظر آ رہا ہے کہ مقصد غزہ والوں کا مکمل صفایا ہے۔ جب سب مارے جائیں گے تب امن ہو جائے گا۔ 
____
اسمعٰیل ہنیہ کو جنگ اکتوبر کے 300 ویں روز ایران کے دارالحکومت تہران کے قلب میں نشانہ بنایا گیا جہاں وہ ایرانی صدر کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کیلئے گئے ہوئے تھے۔ برسبیل تذکرہ، کئی لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایران میں صدر اور پارلیمنٹ کا تکلّف کیا ہی کیوں جاتا ہے۔ سارا نظام ملّا لوگ چلاتے ہیں، سارا اختیار سارا پیسہ ان کے پاس ہے۔ شاید ملّا لوگوں کو صحت مند تفریح کیلئے صدر مملکت اور پارلیمنٹ کے کھلونے درکار ہوں۔ 
بہرحال اسرائیل نے کام دکھا دیا۔ اور بڑا کام یہ دکھایا کہ اسرائیل کی سرزمین سے کوئی جہاز اڑا نہ ڈرون، کوئی راکٹ لانچ ہوا نہ میزائل۔ اسرائیلی ایجنٹ یا سہولت کار خود تہران میں موجود تھے۔  یہ خبر بھی آئی ہے کہ قاتل نے ہتھیار پاسداران انقلاب کی اس بلڈنگ کے اندر ہی سے چلایا۔ تہران کا ’’سیکورٹی نظام‘‘ بھی کیا خوب ہے۔ 
اس سے پہلے بھی تہران، اس کے ایٹمی مرکز اور دوسرے مقامات پر دشمن بہت سے حملے کر چکا ہے اور ہر حملے کے بعد تہران والے اسی جستجو میں ہی رہ گئے کہ 
کون مانوس اجنبی تھا، کدھر سے آیا ، کدھر گیا وہ 
ایران کے ایٹمی شہر پر اسرائیل کا علامتی حملہ چند ماہ پہلے کی بات ہے۔ اسرائیلی جہاز آئے، میزائل گرائے، کچھ عمارتیں تباہ کیں، واپس گئے اور اسرائیل نے خبریں جاری کر دیں۔ ایران والوں کو نیٹ پر یہ خبریں پڑھ کر پتہ چلا کہ کچھ ہوا ہے۔ 
____
ایک دلچسپ اور انوکھی بات کچھ عالمی مبصرین نے کی ہے۔ کہا ہے جنگ پھیلنے کا خطرہ ہے۔ بڑا منہ چھوٹی بات والا محاورہ پرانا ہو گیا، نیا محاورہ یہ ہے کہ جتنا بڑا منہ اتنی بڑی بونگی۔ 
ملاحظہ کیجئے، جنگ کا دائرہ کہاں وسیع ہو گا؟۔ کیا ایران اسرائیل پر حملے کا سوچ بھی سکتا ہے؟۔ حملے سے مراد حملہ ہے، کھلونوں کی بوچھاڑ کرنا نہیں۔ ’’جنگ گزشتہ‘‘ میں ایران نے کئی ہزار ڈرون نما کھلونے اور میزائل نما بڑاوے اسرائیل بھیجے تھے۔ ایک بھی یہودی نہیں میرا تھا۔ 
ایران حملہ نہیں کر سکتا۔ اس کے پاس فضائی حملے کا کوئی انتظام ہے نہ فضائی دفاع کا کوئی ساز و سامان۔ تو کیا ترکی اسرائیل پر حملہ کرے گا جو اس جنگ میں اسرائیل کی ایندھن اور تیل کی تمام ضروریات پوری کر رہا ہے اور اسرائیلی فوجیوں کو صاف صحت مند پانی فراہم کرنے کیلئے جس کے کارخانے رات دن کام کر رہے ہیں۔ کیا وہ دو طاقتور عرب ملک حملہ کریں گے جنہوں نے اس جنگ میں اسرائیل کی معیشت کو لڑکھڑانے نہیں دیا۔ امریکہ اسرائیل کو ہتھیار دیتا ہے، یہ ملک ریال…، بحیرہ قلزم کی سمندری آمدورفت میں کچھ خلل آیا تو ان ملکوں نے فوری طور پر اسرائیل کو خلیج فارس سے ٹرانس جارڈن کا زمینی کاریڈور فراہم کیا۔ 
پھر جنگ کا دائرہ کیونکر پھیلے گا۔ کیا مریخ سے کوئی سرخ ایلین آرمی اسرائیل پر حملہ کرنے والی ہے۔ 
عالم اسلام کی فوجیں جنگوں کیلئے بنی ہی نہیں۔ وہ کس مقصد کیلئے بنی ہیں، اس سوال کا جواب آپ ہر اسلامی ملک کے عوام سے فرداً فرداً معلوم کر سکتے ہیں۔ 
____
پی ٹی آئی نے …راویان صدق بیان کے مطابق الیکشن سے پہلے ہی ہر حلقے کے فارم 45 کی فوٹو شاپ کاپیاں بنا لی تھیں۔ اس فوٹو شاپ فارم 45 کی مدد سے الیکٹرانک میڈیا پر ان اینکرز کی فوج ظفر موج نے فروری سے ہی ایک طوفان مچا رکھا ہے جن کو پراجیکٹ عمران کے تحت ٹی وی سکرینوں پر ’’انسٹال‘‘ کیا گیا تھا۔ 
اصل قصّہ الٹ ہے۔ اس قصّے کا ایک حصّہ مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے، دوسرا مسلم لیگ والوں کے پاس۔ مولانا بولتے رہتے ہیں، مسلم لیگ …سے کب کی توبہ تائب ہو چکی ہے۔ بہرحال، قصّے کی ایک جھلک پی ٹی آئی کے عظیم رہنما، عظیم دادا صاحب کے عظیم پوتا صاحب عمر ایوب کے ماجرے سے نمودار ہوئی۔ رپورٹوں کے مطابق آپ کو سہولت کاروں نے 80 ہزار جعلی ووٹوں سے جتوایا۔ شواہد کا .سہارا لے کر مخالف امیدوار نے حلقہ کھلوانے کا اجازت نامہ حاصل کیا تو عظیم پوتا صاحب وہاں سے اس اجازت نامے کیخلاف سٹے آرڈر لے آئے جہاں پی ٹی آئی کیلئے سٹے آرڈرز کا انبار جمع ہے۔ اب بتائیے!

ای پیپر دی نیشن