اسلام آباد (وقائع نگار+نوائے وقت رپورٹ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا ہے کہ آپ لوگ کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے کہ ملک کو بنانا ریپبلک بنا دیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کس فیصلے پر توہین عدالت ہے؟، سٹیٹ کونسل نے کہا کہ دو آرڈرز ہم نے پاس کیے تھے۔ عدالت نے کہا کہ آپ نے لکھا ہے 20 اگست کے بعد کسی جگہ جلسہ، احتجاج کر سکتے ہیں۔ عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت تو اس پر نہیں بنتی، جج نے درخواست آپ کو بھیجی۔ فیض آباد بلاک ہوا اس کے نقصانات قوم کو ہو رہے ہیں، ڈی چوک پر احتجاج پر مکمل پابندی عائد کر دیں، پچھلے فیض آباد دھرنے میں کتنے لوگ ایمبولینس میں فوت ہوئے؟ حکومتی پارٹی اجازت مانگے گی آپ پلیٹ میں رکھ کر دیں گے، کیا آپ نے پارک میں احتجاج کی اجازت دی؟ پارک پارک ہے اسے پارک رکھیں، رولز بنائیں جگہوں کو مختص کریں۔ دیکھتے ہیں توہین عدالت بنتی ہے یا نہیں، اس سے متعلق آرڈر پاس کروں گا۔ سٹیٹ کونسل نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو 22 اگست کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دے دی ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ہماری یہ درخواست پریس کلب کے باہر اجتجاج کی ہے جلسے کی نہیں، جلسے کی اجازت کا کیس چیف جسٹس کی عدالت میں ہے، ہماری احتجاج کی درخواست الگ ہے جلسے کی الگ ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس صورت حال کی وجہ سے لوگ آپ کے ملک میں نہیں آرہے، الیکشن کمشن کے پاس سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی تفصیلات ہوتی ہیں، ان تفصیلات کے تحت احتجاج میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والی جماعتوں کے اکاؤنٹس اٹیچ کر سکتے ہیں، توہینِ عدالت کیس میں عدالت نے جلسے کی اجازت نہیں دینی، یہ توہینِ عدالت کی درخواست ہے، یا میں انہیں جیل میں ڈال دوں گا یا چھوڑ دوں گا۔ سکیورٹی کے معاملے پر انتظامیہ کے کام میں مداخلت کرنا عدالتوں کا کام نہیں۔