امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ایران کی جانب سے کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کی صورت میں امریکا ، اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کا پابند ہے۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یہ موقف دونوں سربراہان کے درمیان جمعرات کے روز ہونے والے ٹیلیفون رابطے میں سامنے آیا۔ بیان میں بتایا گیا کہ گفتگو میں امریکا کی نائب صدر کملا ہیرس بھی شریک تھیں۔ اس موقع پر صدر بائیڈن نے خطے میں بھڑکی کشیدگی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جاری کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔ بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان بات چیت میں اسرائیل کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کے دفاع کو سہارا دینے کی کوششیں بھی زیر بحث آئیں۔ ان خطرات میں بیلسٹک میزائل اور ڈروان طیاروں سے حملے شامل ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے بیان میں واضح کیا گیا کہ اسرائیل کو سپورٹ کی کوششوں میں امریکی دفاعی ہتھیاروں کے تعینات کی نئی کارروائیاں شامل ہو سکتی ہیں۔ بائیڈن اور نیتن یاہو کے درمیان ٹیلی فون پر یہ رابطہ ایسے وقت ہوا ہے جب تہران میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جا رہا ہے، ہنیہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب ہلاک کر دیے گئے تھے۔ اس دوران اسرائیل نے بیروت کے جنوبی نواحی علاقے میں ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے ایک اہم ترین عسکری کمانڈر فؤاد شکر کو ہلاک کرنے کی ذمے داری قبول کر لی۔ دوسری جانب تہران میں ایرانی ذمے داران اور ایران نواز تنظیموں کے نمائندگان کے درمیان ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں حماس اور حزب اللہ کے نمائندے بھی شریک تھے۔ اس موقع پر اسرائیل کے خلاف ممکنہ جوابی کارروائی کے منظرناموں پر گفتگو ہوئی۔ شرکاء نے اس امکان پر غور کیا کہ جوابی کارروائی ایک ساتھ کی جائے مثلا ایران، حزب اللہ اور حوثی ملیشیا سب ایک ہی وقت میں اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنائیں ... اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر فریق الگ الگ مگر باہمی رابطہ کاری سے جواب دے۔عراق میں اسلامی مزاحمت کی قیادت نے اس بت کو ترجیح دی کہ پہلی جوابی کارروائی کی قیادت ایران کرے جس میں عراق، یمن اور شام سے گروپ بھی شریک ہوں، اس کے بعد دوسرا جواب حزب اللہ کی طرف سے دیا جائے۔