تہران میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کو 31 جولائی کو اسرائیل سے منسوب ایک حملے میں قتل کردیا گیا۔ 30 جولائی کو بیروت میں حزب اللہ کے عسکری رہنما فواد شکر کو قتل کرنے کے بعد اب تل ابیب ممکنہ جوابی رد عمل کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ حالیہ صہیونی جارحیت کے ممکنہ رد عمل کے چار منظر نامے بیان کیے جارہے ہیں۔
1- بالواسطہ جواب
ایرانی امور کے ماہر جابر رجبی کے مطابق پہلا منظر یہ ہے کہ اسماعیل ھنیہ کے قتل کے جواب میں حماس کا عسکری ونگ القسام بریگیڈز لبنان سے اسرائیل پر راکٹ داغے اور اسی وقت حزب اللہ بھی فواد شکر کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے تل ابیب پر حملہ کر رہی ہو۔ یمن کے حوثی اور عراق میں مسلح دھڑے بھی فائرنگ کا محاذ کھول رہے ہوں۔ اس طرح ایران اعلان کرے گا کہ وہ کچھ نہیں کرے گا کیونکہ ھنیہ کا بدلہ لے لیا گیا۔
2- نہ جنگ اور نہ امن
جہاں تک دوسرے منظر نامے کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ ایران، حزب اللہ اور حماس اسرائیل کے ساتھ ایک افہام و تفہیم تک پہنچ جائیں کہ جنگ بندی کی صورت میں حملہ نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ایرانی رہبر اعلی علی خامنہ ای تہران میں درپیش چیلنج کے بعد اس سے مطمئن ہوں گے۔ خاص طور پر چونکہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے جمعرات کو ایک تقریر میں کہا ہے کہ "جواب لامحالہ آئے گا۔"
3- غیر متناسب حملہ
یہ بھی ممکن ہے کہ ایران اسرائیل سے روابط کا دعویٰ کرتے ہوئے غیر اسرائیلی جہازوں یا مقامات پر حملہ کرے جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ تاہم جابر رجبی کے مطابق ایسا کرنے سے شکست کا احساس بڑھے گا اور ایران کی زیادہ کمزوری ظاہر ہوگی۔
4- کئی دنوں تک جنگ
چوتھا منظر نامہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایران کئی دنوں تک اسرائیل پر حملے کرتا رہے۔ اس طرح وہ میڈیا کے پہلو سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور مغربی ممالک اور امریکہ کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ تعلقات کے قواعد کو معمول کی حالت میں بھی لوٹا سکتا ہے۔ دوسری طرف بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ردعمل محدود ہو گا اور یہ ایک ایسی جامع اور جنگ کی طرف لے کر نہیں جائے گا جو خطے میں آگ بھڑکا دے۔
"فضائی پروجیکٹائل" یا بم؟
واضح رہے ایرانی پاسداران انقلاب نے بدھ کے روز اسماعیل ھنیہ کو ان کے محافظ سمیت تہران میں ان کی رہائش گاہ پر قتل کرنے کا اعلان اصلاح پسند ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے بعد کیا تھا۔ایرانی میڈیا کے مطابق اسماعیل ھنیہ شمالی تہران میں سابق فوجیوں کے لیے مخصوص کردہ رہائش گاہوں میں سے ایک میں تھے۔ اس دوران صبح دو بجے اور جی ایم ٹی وقت کے مطابق 22 بج کر 30 منٹ کے قریب ایک ہوائی پروجیکٹائل سے حملہ کیا گیا جس میں وہ مارے گئے۔تاہم امریکی اخبار "نیو یارک ٹائمز" نےدو ایرانیوں سمیت 8 اہلکاروں کے حوالے سے بات کرکے رپورٹ کیا کہ کہ اسماعیل ھنیہ کا قتل ایک دھماکہ خیز ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا جو تہران کے اس گیسٹ ہاؤس میں خفیہ طور پر سمگل کیا گیا تھا جہاں وہ مقیم تھے۔اخبار نے 5 اہلکاروں کے حوالے سے یہ بھی بتایا کہ بم تقریباً دو ماہ قبل ایرانی پاسداران انقلاب کے زیر انتظام ایک گیسٹ ہاؤس میں چھپایا گیا تھا۔ یہ گیسٹ ہاؤس ایک بڑے کمپلیکس ” نشاط“ کا حصہ ہے ۔ یہ کمپلیکس شمالی تہران کی ”راق“ کالونی میں ہے۔