سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ نے آئی پی پیز کا فارنزک آڈٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ رانا محمودالحسن کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکرٹریٹ کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین نیپرا وسیم مختار کی جانب سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی۔چیئرمین نیپرا کا کہنا تھا حکومت، بجلی کمپنی اور صارفین کے درمیان توازن قائم کرنا سب سے مشکل کام ہے، اب بجلی جنریشن کے نئے پلانٹس نہیں آ رہے، اکتوبر، نومبر تک کمرشل مارکیٹ کھولنے لگے ہیں، صارف کو اجازت ہو گی اپنی مرضی کی کمپنی سے بجلی حاصل کریں۔وسیم مختار کا کہنا تھا ہم سب سے غلطی ہوئی، 2007 کے بعد بجلی کی قلت آگئی تھی، 2013-14 میں چینی معاونت سے پاور پلانٹ لگے، ہمارا خیال تھا جی ڈی پی 6 فیصد رہے گی، اس حساب سے بجلی شامل کی، ہم اپنے جذبات میں اوور کیپیسٹی میں چلے گئے، ہماری ڈیمانڈ میں کمی آئی ہے۔ان کا کہنا تھا بجلی قلت کی وجہ سے ہم نے کمپنیوں کو مراعات دی تھیں، ہم نے پلانٹ لگانے والی کمپنیوں کو بطور مراعات ڈالرز میں ادائیگی دی، ہماری روپے کی قدر مستحکم نہیں اس لیے انویسٹر ڈالر میں ادائیگی مانگتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت سرمایہ کاروں کو اعتماد دے، معاشی حالات کو اسٹیبل رکھے تو بجلی کی قیمت نہیں بڑھے گی۔سینیٹر عبدالقادر کا کہنا تھا آئی پی پیزنے اوور پرائسنگ کرکے پیسا کمایا، 10 سال میں پیسا کما لیا ہے، فارنزک آڈٹ کرائیں اور اس کی بھی کڑی نگرانی کرائی جائے۔چیئرمین کمیٹی رانا محمود الحسن کا کہنا تھا لوگ ہمارے گریبان پکڑ رہے ہیں، آئی پی پیز کا فارنزک آڈٹ کرتے ہیں جبکہ سینیٹر سیف اللہ نیازی کا کہنا تھا اس معاملے پر ہم علیحدہ اجلاس کرتے ہیں۔