آپ کے نعلین مبارک کے حوالے سے حکیم حمید نظامی نے شاعری کی ہے۔ پہلے پہل حمید نظامی کا نام ایک شاعر کے طور پر سُن کر میں چونک اٹھا تھا۔ ان کی نسبت عارف کامل حضرت نظام الدین اولیا سے ہے۔ دہلی میں اس علاقے کا نام بھی بستی نظام الدین ہے۔ یہ بھارت کے غریب مسلمانوں کی بستی ہے۔ مزار پر بڑے بڑے حکمران سر جھکائے آتے ہیں۔ مگر وصال کے بعد بھی آپ نے غریبوں کے ساتھ تعلق کو ترجیح دی۔ یہاں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بالخصوص ہندو بھی منتیں مانتے ہیں۔ مسلمان صوفیوں کی دریا دلی اور رواداری کا مقابلہ آجکل کے لبرل دانشور نہیں کر سکتے۔ یہ ایک رومانی نسبت ہے جو قبیلوں خاندانوں میں ڈھل گئی ہے۔ حکیم حمید نظامی کی نسبت نظامیہ سلسلے سے ہے۔ وہ پاکستان میں صحافت کے حوالے سے ایک بہت بڑی فیملی نظامی فیملی سے علمی صحافتی نسبت محسوس کرتے ہیں۔ وہ حمید نظامی کے ہم نام ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ مجید نظامی کو بھی اپنا مرشد خیال کرتے ہیں۔ نظامی برادران کا بھی حضرت نظام الدین اولیا کے ساتھ ایک روحانی تعلق ہے۔ یہ نسبت بڑی بڑی قبائلی نسبتوں سے بہت بڑی اور بہت بامعنی ہے۔ یہ خون کے رشتوں سے زیادہ بااثر اور بابرکت روحانی رابطے ہیں۔
قابل عزت شاعر حکیم حمید نظامی کا تعلق پھول نگر سے ہے۔ حکیم کے طور پر بھی علاقے میں ان کی بہت عزت ہے۔ پھول نگر کا پہلا نام بھائی پھیرو تھا۔ پتہ نہیں اس قبیلے کا کوئی آدمی ابھی اس شہر میں ہے کہ نہیں۔ اس کے بعد اس شہر کا نام پھول نگر رکھا گیا ہے۔ جو اس علاقے کے ایک معروف فلاحی سماجی سیاسی اور عوامی شخصیت رانا پھول محمد خاں کی نسبت سے ہے۔ ایسے لوگ کسی علاقے میں کم کم ہوتے ہیں۔ ان کی جد کو آباد رہنا چاہئے۔ اس علاقے کے لوگ انہیں بھُلا نہیں سکتے۔ وہ اپنے علاقے سے ایم پی اے اور وزیر رہے۔ ان کے صاحبزادے رانا محمد اقبال آجکل پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں۔ وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی اے ہوئے ہیں۔ رانا پھول کا تعلق بھی مسلم لیگ سے رہا.... یہ بھی خاندانی روایت ہے کہ اپنے علاقے کے ایک معروف شاعر کی عزت افزائی کے لئے وہ محفل میں موجود تھے۔ وہ مہمان خصوصی تھے اور صدارت نامور افسانہ نگار ڈرامہ نگار شاعر اور ادبی شخصیت حسین شاد نے کی۔ رانا اقبال بہت مضبوط شخصیت کے آدمی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حمید نظامی نے میرے علاقے کی عزت میں اضافہ کیا ہے۔ ان کی شاعری عشق رسول کا ذوق بڑھانے کے لئے ایک نعمت ہے۔ اس کتاب میں اعلیٰ نعمتوں سے میری روح کو ایک سرشاری ملی ہے۔ رانا صاحب تہذیبی انداز کا مزاح بھی اپنی باتوں میں لاتے ہیں۔ محفل میں بہت سے نعت خوانوں نے عشق و مستی کے مختلف رنگوں سے سماں باندھ دیا۔ وہ سب حکیم حمید نظامی کی نعتیں پڑھ رہے تھے۔ رانا اقبال نے سب نعت خوانوں کے لئے نقد انعام کا اعلان کیا۔ بلند مرتبہ نعت خواں اختر قریشی کے لئے دس ہزار کا اعلان کیا۔ اختر صاحب نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی محفلوں میں بھی نعت پڑھتے ہیں۔ ممتاز نعت خواں عنایت عابد، بلال حسین، عثمان الحسن، شبانہ عباس کے لئے بھی اعلان کیا۔ رانا صاحب بہت بذلہ سنج آدمی ہیں۔ ساتھ ساتھ اپنے سیکرٹری سے پوچھتے بھی جاتے۔ اوئے یار میرے پاس اتنے پیسے ہیں بھی یا نہیں۔ اس پر ساری محفل کشت زعفران بن جاتی۔ خواتین و حضرات ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے....
رانا پھول محمد خان ایک دفعہ وزیراعلیٰ پنجاب سچے ورکر اور نظریانی انسان غلام حیدر وائیں کے پاس گئے اور ایک نوجوان کے لئے ملازمت کی سفارش کی۔ فقیر منش درویش سیاستدان وائیں صاحب نے حسب معمول کہا کہ میرٹ کا سوال ہے۔ رانا صاحب نے کہا۔ میرٹ کی کیا بات کرتے ہو۔ میں پرائمری پاس ہوں اور وزیر ہوں۔ تم میٹرک ہو اور وزیراعلیٰ ہو۔ نوازشریف بی اے ہے اور وزیراعظم ہے۔ یہ تو ایم اے ہے۔ اسے ملک کا صدر ہونا چاہئے۔ وائیں صاحب کا بڑا تعلق مجید نظامی سے تھا۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ انہی کی نظریاتی سچائیوں کی یادگار ہے۔ پھر مجید نظامی نے اسے ایک اعلیٰ نظریاتی ادارہ بنا دیا۔ وائیں ہال میں قائد، اقبال اور مادر ملت کے علاوہ صرف وائیں صاحب کی تصویر ہے اور نمایاں ہے۔ انہوں نے پریس کلب بنوایا۔ وہاں بھی ان کی تصویر ہے۔ انہوں نے ایک زمانہ مسلم لیگ کے دفتر میں ایک ننگی چارپائی پر گزارا مگر مسلم لیگ کے دفتر میں ان کی تصویر نہیں ہے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے مختلف تقریبات میں محترمہ مجیدہ وائیں کو بہت عزت دی جاتی ہے۔
محفل کے عزت مآب صدر حسین شاد نے کہا کہ حکیم حمید نظامی نے عقیدت سے نعلین مبارک کے ذکر سے اپنی شاعری کو اعلیٰ مقام تک پہنچا دیا ہے۔ یہ وجد آفریں شاعری ہمیں بتاتی ہے کہ جو نعلین مبارک اپنے سروں پر رکھتے ہیں۔ اس نسبت سے انہیں تاج شاہی سر پر رکھنے سے بھی بڑی توقیر اور مرتبہ ملتا ہے۔ مفتی غلام حسن قادری امین خیال محبوب سرمد شوکت نوشاہی ارشد اقبال زخمی نے اظہار خیال کیا۔ نامور شاعر اقبال راہی اور مرتضٰی راول نے نظم پڑھی۔ یہ ایک بھرپور اور بارونق تقریب تھی۔ یہاں پھول نگر سے بڑی تعداد میں خواتین و حضرات آئے تھے جو اپنے علاقے میں حکیم حمید نظامی کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ لاہور سے بھی بہت لوگوں نے شرکت کی۔
یہ تقریب ایک دوست نواز علمی ادبی فلاحی سماجی شخصیت دلیر اور دلنواز مدثر اقبال بٹ نے سجائی تھی۔ لاہور سے باہر کے اچھے ادیبوں شاعروں کے لئے یہ اعزاز کی بات ہے۔ لاہور میں بہت کم لوگوں کو یہ توفیق ہوتی ہے کہ وہ پسماندہ اور نظرانداز بستیوں کی طرف نگاہ رکھیں ایسی تقریبات لاہور میں ہونا چاہئیں تاکہ سب کو پتہ چلے کہ مضافات میں بہت اعلیٰ تخلیقی ادب لکھا جا رہا ہے۔