کلاسیکل گائیکی کی ملکہ ”روشن آرا بیگم “

اصغر ملک
ریڈیو پاکستان نے جہاں اور بہت سارے لوگوں کو ان کے علم و فن کے حوالے سے عوام میں متعارف کرواکران کو عزت و آبرو کے ساتھ شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ان کے کار نامے ان کی آواز اور کلام کے ساتھ ریڈیو کے آواز خزانے میں محفوظ و موجود ہیں آج میں دیگر فنکاروں کے ساتھ اس کلاسیکل فنکارہ کا ذکر کررہاہوں جس نے موسیقی کو اپنی محبوبہ بنا کر اس کے ساتھ عشق کیا اس گلو کارہ نے پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے کلکتہ کے سفید پوش گھرانے میں1926ءمیں جنم لیا اور اس کے والدین نے اس کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے وہاں کے مشہور گائیک گھرانے کے استاد عبدالکریم خاں کے حوالے کردیا عبدالکریم خاں نے جب اس کی آواز سنی‘ اس کا شوق دیکھا تو اس کو گانے کی اس انداز میں تعلیم دی کہ اس کے مقدر کا ستارہ چمک اٹھا اور وہ ملکہ موسیقی روشن آرابن کر پھریں اور انڈیا کے موسیقی گھرانوں پر چھا گئیں ملکہ سے مراد ہے کہ ان کو موسیقی کے علم پر بہت حد تک عبور حاصل ہے دستور دنیا ہے جب تک آزما نہ لیں مانتے نہیں‘ دنیا میں عزت و شہرت حاصل کرنے کے لئے بڑے بڑے سپیڈ بریکرز سے گزر کر منزل مراد تک پہنچنا پڑتا ہے اور جب منزل مل جائے تو پھرریڈیو فلم ٹی وی اور پرائیوٹ ادارے بھی اس کے علم وفن سے استفادہ کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں روشن آرابیگم نے جب ریڈیو پروگراموں میں آواز کا جادو جگایا تو انڈیا والوں نے اس کو تمغئہ حسن کار کردگی سے نوازا پھر انڈیا میں سب سے پہلے بننے والی فلم پکار میں سہراب مودی نے ان کو بطور اداکارہ اور گلوکارہ کے کاسٹ کیا وہ فلم کامیاب رہی آج الیکٹرونک میڈیا تو دنیا پر چھایا ہوا ہے بڑی جدید ٹیکنالوجی آچکی ہے لیکن ابتدائی طور پر فلم ریڈیو یا تھیٹر میں ان فنکاروں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں جو اداکاری کے ساتھ ساتھ گانے میں بھی مہارت رکھتے تھے‘ نامور میوزک ڈائریکٹر فیروز نظامی نے فلم جگنو میں روشن آرا سے پہلے پلے بیک گانے‘ گوائے جن میں جو مشہور ہوا۔ دیس کی پرکیف رنگین فضاو¿ں میں) یہاں سے ان کے علم و فن سے متاثر ہو کر چوہدری احمدخاں ڈی ایس پی نے ان سے شادی کرلی اور پاکستان کے وجود میں آجانے اور ہندوں کے روئیے سے دل برداشتہ ہو کر1948 میں پاکستان آگئیں اور لالہ موسٰے میں مستقل رہائش اختیار کرلی اور یہیں کی ہو کر رہ گئیں یہاں ان کو شوبز کے ہر حلقے میں بڑی عزت اورقدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ریڈیو پاکستان لاہور میں کلاسیکل سے لے کر دیگر گیتوںغزلوں وغیرہ میں بھی پرفارم کرتی رہیں1960 ءمیں حکومت پاکستان نے ان کو تمغئہ حسن کار کردگی سے نوازہ) فلم گلنار جو پاکستان میں بنی اس میں البیلے نیناں بنتی کر ہارگئی میں‘ مانت ناہیں مورا کہنا گایا) جو فنی لحاظ سے بہت مقبول ہوا) اسی طرح دیگر موسیقی نواز اور اس کے دل دادا اس کے فن سے اتنے متاثر تھے جیسے خدمت گزار عورتوں کے بچے مالکن کی بہو کے سولہ16 سنگار کو دیدے پھاڑ کر .... کرتے اوران کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حکم کی بجا آوری کے منتظر رہتے ہوں)1965ءکی جنگ کے دوران ریڈیو لاہور میں جنگل ترانے بھی گائے چونکہ و ہ فنی لحاظ سے ذرا مختلف تھے اس لئے وہ اتنے مقبول نہ ہوئے جتنے ملکہ ترنم نور جہاں کے ہوئے) ریڈیو پاکستان اپنے خدمت گزاروں کو بھولتا نہیں ان کی یاد مناتا رہتا ہے اور موسیقی کادل دادا حلقہ ان کے پرانے گانے سن کر ان سے رہنمائی بھی حاصل کرتا رہتا ہے) ریڈیو پاکستان کبھی جشن بہاراںکے نام سے تین3 دن تک اپنے سبز ہ زار میں محفلیں سجایا کرتا تھا جس میں پہلے دن سارے پاکستان کے کلاسیکل گانے والوں کی محفلیں سجتی دوسرے دن ہلکی پھلکی موسیقی جس میں غزل گیت گانے والوں کومدعو کیاجاتا تیسرے اور آخری دن گیت گانے والوں کے لئے مخصوص ہوتا جس میں سارے پاکستان سے فنکار حصہ لیتے اور ان محفلوں کی گونج اور اس کے تذ کرے سارا سال سنائی دیتے رہتے روشن آرا بیگم استاد سلامت علی خاں‘ فیروز نظامی صاحبان کے علاوہ ریڈیو کے پروڈیوسر مل کر آئندہ کے لئے ان کی کیٹگریاں بناتے اور سٹیشن ڈائریکٹر کو پیش کردیتے اور اسی حساب سے ان کو پروگرام ملتے“ ملکئہ ترنم نورجہاں اور ملکئہ موسیقی روشن آرا جیسی گلوکارائیں سامنے نہیں آسکیں روشن آرا بیگم چھے6 دسمبر1984 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں اور لالہ موسیٰ شہر کانام بھی روشن کرگئیں لالہ موسیٰ پاکستان میں ان کا مزار موجود ہے۔ جہاں موسیقی کے رسیا وہاں فاتحہ خوان کے لئے جاتے رہتے ہیں“۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...