”دھرنے‘ دھماکے عوام کیلئے‘ دولت اور حفاظت خواص کیلئے“

قارئین کس قدر صدمے کی بات ہے چھ دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی قائد و اقبال کی عزیز ازجان دھرتی پر عوام و خواص کے دو طبقے موجود ہیں۔ خواص اونچے کنٹینروں اور ڈائسوں پر کھڑے ہوکر دولت و حفاظت کے حصار میں سیاست کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب اخبار پڑھنے والوں کی آنکھیں سرخ آنسوﺅں کے سمندر نہ بہاتی ہوں‘ ان کے کلیجوں کے پُرزے نہ اُڑتے ہوں‘ ہر روز ہر اخبار کی ہر سرخی ایسی خبروں سے سرخ نہ ہو کہ درجنوں خودکشیوں میں‘ خودکش دھماکوں میں‘ ڈرون حملوں میں‘ غریب عوام کی سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہو گئی ہیں۔ کتنے خاندان اُجڑ گئے ہیں؟ کتنے مظلومین و معصومین کے پرخچے اُڑنے سے کتنی عورتیں بیوہ ہو کر، کتنے یتیم بچے اور کتنی مائیں اپنے لخت جگروں سے جُدائی سہنے کیلئے کتنے عرصے تک اشک و خون کے سمندر پیتی رہیں گی؟ اور اس زہر سے جانبر بھی نہ ہو سکیں گی اور مر بھی نہ سکیں گی؟ اس المیے کے علاوہ بھی ہر روز ایسی درجنوں مزید خبریں ہوتی ہیں کہ کوئی مامتا کی ماری ماں مارے غربت کے اپنے دو بچوں کو کمر بلکہ دل کے ساتھ باندھ کر کنویں میں کود گئی ہے۔ کوئی اپنے چار لخت جگروں سمیت خود کو زہر کا انجکشن لگا کر ختم ہو گئی ہے۔ کوئی بیروزگار گبھرو پھندے کیساتھ لٹک گیا۔ کئی مجبور و غریب باپ اشتہار لگا کر پالتو جانوروں کی طرح بچوں کو بیچنے کیلئے بازار میں آبیٹھے ہیں؟ ایسے سرخ حالات میں برائے خدا حکمران اور سیاستدان خدا کا خوف کریں۔ لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے حاصل کردہ قائد و اقبال کے پاکستان کےساتھ ایسا سوتیلا سلوک ہرگز نہ کریں۔ جمہور اور جمہوریت کی حرمت کو اپنی حکومت اور سیاست کے زعم میں یوں پامال نہ کریں کہ آئندہ جمہور ووٹ استعمال کرنے سے گناہ کی طرح تائب ہو جائے۔ برائے خدا غریب عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین کر خود کو پاﺅں سے لیکر منہ تک اس طرح دولت سے مت بھر لیں کہ ان کے حق میں ایک حرف بھی منہ سے نہ نکال سکیں جبکہ خود صرف زبان چلا چلا کر ارب پتی بن جائیں‘ غریب عوام جیلیں کاٹیں‘ پولیس کا تشدد برداشت کریں‘ خودکشیاں کریں۔ خودکش دھماکوں کا نشانہ بن کر ختم ہو جائیں‘ فلک بوس بڑے بڑے محلات اور لمبے چوڑے نام نہاد سرکاری ایوانوں کے سامنے دیوانوں کی طرح کھڑے ہوکر اپنے مسائل حل کرانے کی دہائیاں دیں‘ لیکن کوئی نہیں جان سکتا عملاً یہ سب کچھ کر گزرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ بھلا حکومت کے سنگھاسن پر بیٹھ کر محلات کے دروازے بند اور کتے کھول کر بے بس و لاچار عوام سے کیسے رابطہ رکھا جا سکتا ہے؟ اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایسے ایسے حکمرانوں کا ذکر ملے گا جنہوں نے اپنے دور میں بھوک سے مرنے والے کتے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ جبکہ موجودہ دور میں ہر روز سینکڑوں بھوکے انسانوں کے مر جانے کی ذمہ داری قبول کرنے سے بھی خود کو مبرا سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہماری مقدس اور عظیم تاریخ میں اپنے منہ کا نوالہ راہ چلتے مسافر کو گھر بلا کر اس کے منہ میں ڈال دینے اور ہاتھ بڑھا کر اپنا دیا بجھا دینے کا تذکرہ موجود ہے۔ ہر حکمران کی آنکھوں سے خوف خدا سے بہنے والے گریبان سے دامن تک کے طویل آنسوﺅں کا بھی ذکر درج ہے جس میں بار بار اس بات پر زور ہے کہ عوام کے خادم حکمرانو! کبھی اپنے در پر دربان نہ رکھنا ورنہ تمہارے گریبان اور دربان کے درمیان آنیوالا سائل تجھے رب العالمین کے حضور گرفتار کرا دے گا اور پھر یوں ہوا کہ رحمتہ اللعالمین ختم المرسلین نے بھی اپنے عمل مبارک سے یہ ثابت فرما دیا بلکہ دکھا دیا کہ وہ ہستیِ اکمل جس خاطر سات زمین اور آسمان بنائے گئے تھے‘ انہوں نے اپنے لئے کوئی محل بنایا نہ ہی دربان رکھا‘ وہ جو بظاہر فرش نشین تھے‘ دراصل تو عرش نشین تھے۔ اس فرش نشین کی پیروی ہم کب کریں گے؟ .... کوئی ان سیاستدانوں اور حکمرانوں سے پوچھے تم کس راہ پر چل رہے ہو؟ کیا یہ وہی راستہ ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے؟ کیا یہ وہی اعمال ہیں؟ وہی تاریخ ہے جو چودہ سو سال سے ہمہ گیر و عالمگیر رہی ہے؟ مگر یہاں تو خود کو خود بھرنے‘ خود کو خود بچانے‘ خود کو خود شاباش دینے‘ خود کو خود ہر روز گھسیٹ گھسیٹ کر غیرملکی دوروں پر لے جانے‘ امریکہ جیسے عالمی نامنصف کے سامنے سجدوں کے ڈھیر لگانے‘ اسکے حکم پر سینکڑوں بے گناہ اسکے حوالے کرنے‘ عافیہ صدیقی جیسی پاک و جری بیٹیاں اس کی بھینٹ چڑھانے ہی کو منتہائے حکومت اور انتہائے سیاست سمجھ لیا گیا ہے؟ جبکہ حق یہ ہے کہ ہمارے تمام تر سابقہ اور موجود سیاستدانوں‘ حکمرانوں کو فریبِ ذات کے دائرے سے باہر نکل کر وہی کچھ کرنا چاہئے جو ہماری تاریخ کا تقاضا ہے‘ جو ہمارے دین و مذہب کا حکم ہے۔ خدارا غریب اور بے بس عوام کا ہاتھ پکڑ کر ان کے مسائل حل کریں‘ انکی غربت ختم کریں‘ ان کو بیماریوں اور ناانصافیوں سے بچائیں‘ خود ان تک چل کر جائیں‘ ان کے دکھ سمیٹیں ورنہ خدا تعالیٰ اور اس کا محبوب تمہیں کبھی معاف نہیں کریگا۔ اس بڑے اور کڑے حساب کے دن سے ڈرنا چاہئے جب جکڑے اور پکڑے جانے کے بعد کوئی ارب پتی ایک دوسرے کو بچانے نہیں آئیگا۔

ای پیپر دی نیشن