آغاز میں 14 اگست اور اب انجام 16 دسمبر کو ہو رہا تھا۔ عمران خان نے کبھی سوچا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ پرویز رشید نے ٹھیک کہا ہے کہ عمران سانحہ ڈھاکہ دہرانا چاہتا ہے۔ پرویز رشید سے گذارش ہے کہ عمران یہ سب کچھ چاہتا ہو گا؟ مگر ایسا نہیں ہو گا۔ عمران کونسی تاریخ بنانا چاہتا ہے؟ تو پھر ایسی تاریخیں کیوں دیتا ہے۔ 15 اگست بھی ہو سکتی تھی مگر یہ تو بھارت کا یوم آزادی ہے۔ اسے عمران ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا تو وہ کیا چاہتا ہے۔ اب16 دسمبر کی بجائے 18 دسمبر مگر وہ تو 25 دسمبر رکھنا چاہتا تھا۔ وہ قائداعظم کے بیٹوں سے نہیں ڈرتا۔ چند مسیحی بھائیوں نے عالمی بے چینی سے ڈرا دیا ہے۔
شاید اسے معلوم ہو مگر لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ بیرونی طاقتیں اور ایجنسیاں کیا چاہتی ہیں اور عمران سے کیا کرانا چاہتی ہیں۔ عمران ناکام ہو رہا ہے مگر اس سے کچھ نہ کچھ کرانے والے ابھی مایوس نہیں ہوئے۔
دھرنا دھرے کا دھرا رہ گیا۔ بس بڑھکیں ہی بڑھکیں، دھمکیاں اور گالیاں وغیرہ شیخ رشید نے عمران کو بڑا اکسایا تو شیخ صاحب کو کس نے اکسایا ہے؟ کہا گیا کہ جب آزادی مارچ اسلام آباد پہنچے گا تو نجانے کیا ہو جائے گا۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ دھرنا آگے بڑھتا رہا اور ورنہ ورنہ کی گونج اونچی ہوتی گئی اور ثابت یہ ہوا کہ اسی پچھلی تنخواہ پر کام کریں گے اور ابھی تک یہ کام ہو رہا ہے۔ جلسے اور خاص طور پر لاڑکانہ کا جلسہ تھا۔ وہی تقریر اور وہی تقدیر۔ اب یہ شور شرابہ تھا کہ 30 نومبر کو کیا ہو گا۔ مجھ سے بہت لوگوں نے پوچھا۔ میں نے تنگ آ کے کہا کہ 30 نومبر کے بعد یکم دسمبر ہو گی۔ آج یکم دسمبر ہے مگر عمران کے پچھلے بہت سیانے ہیں۔ وہ سیدھے 4 دسمبر تک چلے گئے اور پھر جماعة الدعوة والوں کی ایک ہی وارننگ پر یوٹرن لیتے ہوئے لاہور کیلئے 15 دسمبر پر آ گئے ہیں۔ اس سے پہلے 8 دسمبر کو فیصل آباد اور وہاں تو قادری صاحب بھی گئے تھے۔ کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ فاصلے ہی فاصلے بڑھتے رہے۔ 12 دسمبر کو کراچی اور پھر 16 دسمبر کے بجائے اب 18 دسمبر کو پورا پاکستان بند کرایا جائے گا۔ ان شہروں میں عمران جا چکے ہیں اور 30 نومبر کو پورے پاکستان سے خواتین و حضرات کو بلاتے رہ گئے۔ 30 نومبر یہودیوں کا ایسا دن ہے کہ وہ جشن مناتے ہیں۔ خواتین و حضرات نے تو خوب جشن منایا۔ ناچے کودے، گانے گائے، نعرے لگائے مگر عمران خان کے لہجے میں حسب معمول غصہ تھا۔ اس نے یوم سقوط مشرقی پاکستان کو جشن منانے کا اعلان کر دیا۔ یہ تاریخیں عمران کو کون دیتا ہے؟
اس پر مریم نواز کا تبصرہ خوب ہے۔ عمران گھنٹوں سٹیج پر بیٹھ کر لوگوں کا انتظار کرتے رہے۔ وہ جو منتظر رہنا جانتا ہی نہیں۔ جلسوں میں دیر سے پہنچتا ہے۔ آج دو بجے سے ہی سٹیج پر آ گیا۔ کالی عینک کے باوجود ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بار بار سامنے دیکھتا رہ گیا۔ دس لاکھ لوگ آئیں گے مگر کتنے آئے؟ وہ اتنے تھوڑے تھے کہ گننا محال تھا۔ جلسوں میں لوگ زیادہ ہوں تو جلدی گنے جاتے ہیں۔ ابھی میں موبائل فون کے لئے گیٹ وے ایکسچینج کا ذکر اگلے کالم میں کروں گا۔ جس سے اربوں روپے کا ملک کو نقصان ہوا۔ ریٹائرڈ جنرل پاشا اور رحمان ملک کو اربوں روپے کا فائدہ ہوا۔ اس کالم میں یہ ذکر سما نہیں سکتا۔ مجھے ریٹائرڈ جنرل پاشا یاد آئے اور یاد آیا کہ پیپلز پارٹی کے مخدوم مرید حسین قریشی کی یوم تاسیس میں لاہور آمد سے ”صدر“ زرداری بہت خوش ہوئے۔ مخدوم مرید حسین کی بات بھی پھر کبھی کروں گا۔ اس نے بتایا کہ مجھے مخدوم شاہ محمود قریشی نے ہدایت کی تھی کہ دبئی جاﺅ اور ”جنرل“ سے ملو۔
30 نومبر کو ایک تقریر لاہور میں ”صدر“ زرداری نے بھی کی۔ جشن اور ماتم کو رلا ملا دیا۔ گو نواز گو کا نعرہ اچھا ہے مگر ہمیں اتنی جلدی نہیں ہے۔ ہم اسے جمہوری طریقے سے نکالیں گے؟ حکومت اس وقت گرے گی جب ہم چاہیں گے مگر ہم کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے اور جمہوریت کی کشتی نہیں ڈبوئیں گے۔ ”صدر“ زرداری نے اپنے سامنے بیٹھی ہوئی بھیڑوں سے کہا کہ بھیڑیے نے اسلام آباد میں خیمے لگا لیے ہیں۔ اور میں پارٹی کے اندر اور باہر سب بھیڑیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان سے عرض ہے کہ وہ بھیڑئیے جو انہوں نے خود پال رکھے ہیں ان سے پارٹی کو کیسے بچائیں گے۔ ہمارے کاروبار سیاست و حکومت میں جو بھیڑیا نہیں بن سکتا تو پھر اس کے لئے کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ وہ بھیڑ بن جائے۔ پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس پر کئی بھیڑیوں کے خلاف نعرے بھی لگتے رہے۔ گو نواز گو کے ساتھ گو وٹو گو اور گو بدر گو کے نعرے بھی لگے۔ ہڑبونگ کو روکنے کے لئے زرداری صاحب فوراً سٹیج پر آ گئے۔ بات کرنا پڑی۔ ”صدر“ زرداری شکر کریں کہ ابھی تک جیالے ان کا احترام کرتے ہیں۔ ان کی بات سنتے ہیں۔ اعتبار اور پیار پیپلز پارٹی میں عام کرنا ہو گا۔ یہ نایاب چیز صرف خاص لوگوں میں نہیں ہے۔ اور ”صدر“ زرداری کو انہی مفاد پرست ”دوستوں“ نے گھیرا ہوا ہے۔ وہی ہوا زرداری صاحب کودوستوں سے دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ سیاست ایوان صدر میں بھرپور تھی جب وہاں ”صدر“ زرداری تھے۔ اب یہ لوگ بلاول ہاﺅس کو بھی ایوان صدر بنانا چاہتے ہیں۔ ”صدر“ زرداری کھل کر نواز شریف کی حمایت کریں یا کھل کر کھیلیں۔ کراچی اور لاہور میں مختلف انداز سیاست کا اندازہ سب کو ہو گیا ہے۔
برادرم منور انجم آج بھی وہی کام کر رہا ہے جو وہ بے نظیر بھٹو کی زندگی میں کرتا تھا۔ وہ کل بھی مخلص تھا آج بھی مخلص ہے۔ ”صدر“ زرداری تک تمام معاملات کی خبر منور انجم کی معرفت سے پہنچتی ہے۔ ایسے لوگ پیپلز پارٹی میں بہت ہیں اور بے قرار ہیں۔ بے قراری کے بعد سرشاری کی منزل نہ آئے تو جگنو گم ہو جاتے ہیں۔ وہ اندھیرے راستوں میں چمکتے ہیں۔ مگر سیاسی منزل قریب نہیں آتی۔ رہی منزل کی بات تو ہم وہاں پہنچنا نہیں چاہتے۔ آج وسیم صاحب کا فون بھی آیا۔ وہ میرے کل والے کالم کے حوالے سے بات کر رہا تھا۔ کہنے لگا کہ تمہارے دل سے بھٹو کی محبت کم نہیں ہوئی اور زرداری صاحب کو بھی آپ یاد رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ محبت اور یادگار رشتہ بڑا گہرا ہے مگر درمیان میں سیاست آ جاتی ہے۔ نواز شریف اور ”صدر“ زرداری کے درمیان بھی سیاست آئی ہوئی ہے۔ عمران ان دونوں کی سیاست کو نہیں سمجھا۔ اسی لئے وہ نیا پاکستان بنانا چاہتا ہے۔ عمران نے کہہ دیا ہے کہ وہ وزیراعظم نہیں بننا چاہتے تو وہ کیا سب کچھ شاہ محمود قریشی کے حوالے کر دیں گے۔ ”صدر“ زرداری کو چاہئے کہ شاہ محمود قریشی کو دوبارہ، پیپلز پارٹی میں شامل کر لیں۔ وہ پہلے بھی گیلانی کی بجائے قریشی کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے۔ اس میں عمران خان کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ مریم نواز کی بات پر بھی غور کر لینا چاہئے۔ وہ کہتی ہیں عمران پلان اے بی سی کے بعد ڈی بھی شروع کریں گے۔ وہ خود اپنی سیاست کا تجزیہ کریں۔ عوام کوکوئی فیصلہ کرنے دیں اور اچھی سیاست کی طرف واپس آ جائیں۔