خبریں اتنی زیادہ ہیں کہ سب کا احاطہ نہیں کِیا جا سکتا۔ بس ٹوٹے ہی چلائے جا سکتے ہیں۔ وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اِسحاق ڈار خوش ہیں کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فیصد مفلُوک اُلحال لوگوں کے پاس اِن دِنوں اُن پر تنقید کے لئے وقت نہیں ہے۔ بھوکے ننگے اور بے گھر ہونے کے باوجود اُن کی توجہ اِس بات پر ہے کہ وزیرِاعظم نواز شریف اور اُن کے ساتھیوں کی حکومت بچانے اور عمران خان اور ”نیا پاکستان“ بنانے کے دعویدار اُن کی ٹیم کی حکومت گرانے کی کوششوں سے انہیں کتنے نفلوں کا ثواب مِلے گا؟
16 دسمبر کو ”پھر نیا پاکستان“
سیاست میں تیزی سے ترقی کا سفر میں طے کرنے کے شوقین عمران خان کے دِل و دماغ پر جناب ذوالفقار علی بھٹو چھائے ہُوئے ہیں۔ موصوف مخالف سیاستدانوں کو ”اوئے توئے“ کرنے میں جنابِ بھٹو سے بھی بازی لے گئے ہیں۔ بِلاشُبہ خان صاحب نے بھٹو صاحب کا انداز اختیار کر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بہت مُتاثر کِیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل نوجوان طبقہ کا "Style" 1967ءمیں قائم ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی Youth سے زیادہ جارحانہ ہے۔ یہاں تک کہ پرویز خٹک جیسے معمر سیاستدان بھی دھرنوں میں ناچتے ہُوئے اپنے کپتان کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہُوئے گُنگُناتے ہیں کہ
”جِنّا تیری مرضی نچا بیلِیا“
جنابِ بھٹو نے 30 نومبر کو پاکستان پیپلز پارٹی بنائی تو عمران خان نے ”سی کلاس پلان“ کا اعلان کرنے کے لئے 30 نومبر کے دِن کا انتخاب کِیا۔ جنابِ بھٹو نے جنرل یحیٰی خان ”نوں اگّے لا کے“ 16 دسمبر 1971ءکو کمال دِکھایا اور سوِیلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان کا منصب سنبھال کر بچے کُھچے پاکستان کو ”نیا پاکستان“ قرار دِیا تو جنابِ عمران خان نے بھی 16 دسمبر کو پورا پاکستان بند کرنے کا اعلان کر دِیا۔ اب کسی کے عقل دلانے پر انہوں نے 16 دسمبر کو 18 دسمبر میں تبدیل کر دیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت عمران خان کے مطالبے پر ”چار دھاندلی باختہ“ حلقے کھول دیتی تو بات شاید مُلک کی اقتصادی بدحالی کی طرف نہ بڑھتی۔ مسلم لیگ (ن) کے وزراءاور تحریکِ انصاف کے زُعما میں جُگت بازی اور زبان درازی کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ فریقوں کا خیال ہے کہ بھوکے، ننگے اور بے گھر لوگ اپنے مسائل کو بُھول چُکے ہیں ”پرانے پاکستان“ میں اُن کا بھلا نہیں ہوا تو ”نئے پاکستان“ میں کیا ہو گا؟ کیا وہ آسمانوں سے حضرت عیسٰیؑ کے اُترنے کا انتظار کریں!
شاہ محمود قریشی کی ”گدّی“
پاکستان تحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین جناب شاہ محمود قریشی کے چھوٹے بھائی جناب مُرید حسین قریشی پاکستان پیپلز پارٹی میں ہیں۔ پاکستان کا آئین کسی بھی گدّی نشین، سجّادہ نشِین یا پِیر یا اُس کے بھائی کو کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار یا رُکن بننے سے نہیں روکتا۔ 30 نومبرکو جناب مرید حسین قریشی کا ایک اعلان قومی اخبارات میں شائع ہُوا جِس میں انہوں نے کہا کہ ”مَیں نے شاہ محمود قریشی کو ملتان کی درگاہ حضرت بہاﺅ الدّین زکریا اور حضرت شاہ رُکنِ عالم کی سجّادہ نشِینی سے برطرف کر دِیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے غوثیہ جماعت کے نام پر ہر ماہ 50 لاکھ روپیہ چندہ اکٹھا کر کے تحریکِ انصاف کے جلسوں اور دھرنوں پر خرچ کر رہے ہیں۔“ شاہ محمود قریشی صاحب کو اپنے برادرِ خورد کے بیان پر کہنا چاہیے تھا کہ
”دِل کے پھپھولے جل اُٹھے سِینے کے داغ
اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“
لیکن انہوں نے مایوسی کا اظہار نہیں کِیا اور کہا کہ ”میرے مُریدین میرے چھوٹے بھائی مُرید حسین قریشی کے بیان پر نہ گھبرائیں، مَیں جِس مسند پر بیٹھا ہُوں وہاں سے مجھے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ دستور کے مطابق جب باپ کا انتقال ہوتا ہے تو بڑے بیٹے کو دستار باندھی جاتی ہے۔ مجھے بھی باندھی گئی ہے اِس لئے کہ میں بڑا بھائی ہوں۔“ اِس لحاظ سے بڑے قریشی صاحب کا دعویٰ تو درست ہے۔ بڑے قریشی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ ”مَیں نے غوثیہ جماعت کو سیاست کے لئے کبھی استعمال نہیں کِیا۔“ پنجابی کے صوفی شاعر حضرت سُلطان باہو نے کہا تھا کہ
”مُرشد دا دیدار اے باہُو
جِیوے لَکّھ کروڑاں حجّاں ہُو“
یعنی اے باہُو! (مُریدین کے لئے ) مُرشد یا پِیر کا دیدار اِس طرح ہے کہ گویا انہوں نے لاکھوں یا کروڑوں بار حجّ کی سعادت کر لی ہو۔ اِس لحاظ سے بھلا جناب شاہ محمود قریشی کے مُریدین اپنے مُرشد کی باتوں میں کیوں آئیں گے؟
اِکّ زرداری لِیگ تے بھاری!
لاہور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے یومِ تاسِیس پر خطاب کرتے ہُوئے جناب آصف زرداری نے کہا کہ ”ہمیں ”گو نواز گو“ کا نعرہ اچھا لگتا ہے لیکن ہمیں جلدی نہیں ہے۔ کپتان (عمران خان) کو باﺅلنگ کرنے دیں، پِچّ ٹھیک ہو جائے گی تو ہم آ جائیں گے، حکومت تبھی گرے گی جب ہم گِرائیں گے۔“ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے بابا سائیں کو ”سیاسی سائنس دان“ کا خطاب دِیا تھا۔ 11 مئی 2013 ءکے عام انتخابات میں تو ”اِک زرداری سب پر بھاری“ کا نعرہ کامیاب نہیں ہُوا تھا لیکن مسلم لیگ (ن) کی طرف سے جنابِ زرداری کے فِدویانہ روّیے سے ثابت ہو گیا ہے کہ ”اِک زرداری لیگ پہ بھاری!“
فلسفہ¿ باچا خان“ اور الطاف حسین؟
پاکستان بنانے والوں کی اولاد کہلانے والوں کی پارٹی ”مُتّحدہ قومی موومنٹ“ کے قائد جناب الطاف حسین نے باچا خان (خان عبدالغفار خان کے ”فلسفہ¿ عدمِ تشدد“ کو عام کرنے کا اعلان کرتے ہُوئے باچا خان (مرحوم) کی بہو بیگم نسیم ولی خان کو اپنی ”ماں“ بنا لِیا ہے۔ بیگم نسیم ولی خان کی نائن زِیرو پر آمد پر جناب الطاف حسین نے کہا کہ ”ہم ماں جیسی عظیم ہستی کی نائن زِیرو پر آمد پر خُوش آمدید کہتے ہیں۔“ یہ دوسرا رشتہ ہے جو الطاف صاحب نے کسی سیاستدان سے جوڑا ہے۔ علّامہ طاہر القادری گزشتہ سال پاکستان میں ”اِنقلاب“ لانے سے پہلے نائن زِیرو پر گئے تو قائدِ تحریک نے انہیں اپنا بڑا بھائی بنا لِیا تھا اور اُن کی کینیڈین اور اپنی برطانوی شہریت پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دِیا تھا کہ ”قائداعظم“ نے بھی تو گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے برطانوی بادشاہ سے وفاداری کا حلف اُٹھایا تھا۔“
باچا خان ہندوﺅں کے باپو شِری موہن داس کرم چند گاندھی سے عقیدت کی بنا پر ”سرحدی گاندھی“ کہلاتے تھے۔ گاندھی جی قیام پاکستان کو ”بھارت ماتا کے ٹکڑے“ کرنے کے مترادف قرار دیتے تھے۔ الطاف حسین اور متحدہ قومی موومنٹ کے دوسرے قائدین قیامِ پاکستان میں 20 لاکھ مسلمانوں کی قربانیوں کا تذکرہ کر کے مہاجروں کے نام سے سیاست تو کرتے ہیں۔ پھر انہیں باچاخان کا فلسفہ¿ عادمِ تشدد کیسے یاد آ گیا؟ باچا خان نے تو پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیںکِیا
”کچھ نہ سمجھے خداکرے کوئی“