تھر میں غذائی قلت اور بیماریوں سے مزید 5 بچے جاں بحق

Dec 02, 2014

مٹھی (نوائے وقت رپورٹ+نیٹ نیوز) قحط اور خشک سالی کا شکار سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں غذائی کمی اور بیماریوں سے متاثرہ مزید 5 بچے دم توڑ گئے۔ واضح رہے کہ ایک ماہ کے دوران دنیا چھوڑنے والے بچوں کی مجموعی تعداد 140 ایک سال کے دوران زندگی کی بہاروں سے محروم رہنے والے بچوں کی تعداد 511 ہوگئی۔ گزشتہ روز مٹھی سول ہسپتال، ہابوہر ڈیپلو میں 3 شیرخوار بچیوں اور بنسی دا میں ایک نومولود دنیا چھوڑ گیا۔ سندھ حکومت کی طرف سے صورتحال پر قابو پانے کیلئے ناکافی اقدامات کے باعث درجنوں بچے ہسپتال میں بغیرعلاج اور ادویات جاں بلب ہیں۔ دریں اثناءبی بی سی کے مطابق تھر میں دوپہر کے تین بجے تھے۔ دو کچے کمروں پر مشتمل گھر کے آنگن میں ایک حاملہ خاتون کپڑے دھونے میں مصروف تھی، غریب ہندو دھرمو میگھواڑ کی بیوی کی زچگی کسی بھی وقت متوقع ہے، گھر، شوہر اور ڈیڑھ سالہ بچے کے علاوہ آنے والے مہمان کا خیال بھی ان ہی کو رکھنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ کے شہروں میں لیڈی ڈاکٹر حاملہ خواتین کو بھرپور غذا کے مشورے دیتی ہیں، لیکن صحرائے تھر میں آٹھ ماہ کی اس حاملہ عورت کو اپنے اور آنے والے بچے کے لیے کون سی غذا دستیاب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قحط میں کیا بنائیں، بارشوں کے بعد کھیتی کرتے تھے تو اناج اور سبزی مل جاتی تھی اب تو صرف سوکھی روٹی اور سرخ مرچ کی چٹنی بناکر کھاتے ہیں اور یہ روٹی بھی صبح اور رات کو دستیاب ہے دوپہر نہیں۔ انہوں نے بتایا غربت اور بیماری میں مویشی بیچنے پڑے، اب دودھ دہی کہاں سے آئے۔ راموں میگھواڑ کا شوہر دھرموں کی اگر مزدوری لگ جائے تو شہر سے سب سے کم قیمت ملنے والی سبزی خرید لاتا ہے اور ایسے مواقع ہفتے میں صرف دو ایک بار ہی آتے ہیں۔ جب بی بی سی نے راموں سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ گوشت نہیں کھاتے تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’وہ تو بھایا امیروں کے لیے ہے۔‘ رپورٹ کے مطابق قحط زدہ اس خطے میں حکومت کی جانب سے حاملہ عورتوں اور نومولود بچوں کو طاقت سے بھرپور غذا یعنی ’نیوٹریشن سپلیمنٹ‘ فراہم کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے لیکن مٹھی سے 13 کلومیٹر دور ہوتھیر نامی گاو¿ں کے زچہ و بچہ دونوں ہی اس مدد سے محروم ہیں۔
22 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے صحرائے تھر میں 15 لاکھ لوگ آباد ہیں جن میں سے تقریباً 45 فیصد عورتیں ہیں، جن کے لیے بھی صرف 22 لیڈی ڈاکٹرز ہیں جو مٹھی جیسے شہروں کے ہسپتالوں تک محدود ہیں۔ تھر میں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا رجحان عام ہے۔ ہوتھیر گاو¿ں کی رہائشی لچھماں کے چوتھے بچے کی پیدائش بھی دو ماہ قبل گھر میں ہی ہوئی ہے۔ لچھماں کے شوہر کو اپنے بچوں کے علاوہ بھائی کے یتیم بچوں کی کفالت بھی کرنی ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ تھر میں اکثر زچگیاں گھروں میں ہوتی ہیں جس کے باعث بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے۔ لچھماں بتاتی ہیں کہ ان کے پاس پیسے ہوتے تو شہر کے ہپستال جاتے، گاو¿ں سے شہر تک کا یک طرفہ کرایہ 1500 روپے بنتا ہے وہاں ہپستال میں دواو¿ں اور ٹیسٹ وغیرہ کا خرچہ الگ وہ یہ کہاں برداشت کرسکتے ہیں۔ لچھماں میگھواڑ کے مطابق ان کا بچہ جب پیدا ہوا بالکل کمزور تھا، کیونکہ وہ خود جو کمزور تھیں۔’ماں کو کچھ کھانے کو ملے گا تو وہ بچے کو دودھ پلا سکے گی، ہم تو روٹی بھی کالی چائے کے ساتھ کھاتے ہیں۔‘
تھر

مزیدخبریں