اخلاق وہ عطیم اور اساسی علم ہے جس سے شخصیت کی نشوونما ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے اسلام کو ایک ضابطہ حیات قرار دیا ہے۔ جس کی اعلیٰ اقدار حریت ، مساوات، صداقت، سچائیت اور روا داری ہیں۔ علامہ اقبال صرف اس نظریہ کو قبول کرتے ہیں جو زندگی کی اخلافقی بنیادوں کو مستحکم کرے۔ کوئی بھی تہذیب جو اخلاق کی اساس پر استوار نہ ہو کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کی تعمیر میں تخریب مضمر ہوتی ہے۔ انہوں نے مغربی تہذیب کو اخلاق سے عاری دیکھ کر ۷۰۹۱ء میں اس کی تباہی کی پیشگوئی مندرجہ ذیل الفاظ میں کی تھی جو سات سال بعد پہلی جنگ عظیم کی صورت میں صحیح ثابت ہوئی:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
اقبال آزادی گفتار و کردار کو انسان کا بنیادی حق تصور کرتے ہیں۔ لیکن آزادی افکار میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم اس تحریک کو جو حریت اور آزادی کے نام پر عالم اسلام میں پھیل رہی ہے دل سے خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ بھی ہے۔ آزاد خیالی کا رجحان بالعموم تفرقہ اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔‘‘ آزادی کی تحریک قومیت اور نسلی رجحان کو فروغ دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں جماعتیں مختلف اخلاقی ضابطے وضع کرلیتی ہیں اور وحدت ملی کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ یورپ میں اسی آزاد خیالی کے نتیجے میں مذہب معطل اور منتفی ہوا اور سیکولر ازم کا دور دورہ شروع ہوا۔ اقبال نے فرمایا؛ ’’ ہم کچھ ویسے ہی حالات سے گزر رہے ہیں جن سے پروٹسنٹ یورپ میں گزرے تھے۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ان نتائج کو فراموش نہ کریں جن سے لوتھر کی تحریک کے نتائج مرتب ہوتے تھے۔‘‘
اقبال کے نزدیک اسلامی تہذیب وہ عملی طریقہ ہے جس سے شخصیت کی نشوونما ہوتی ہے اور آدمی کو انسان بننا میسر آتا ہے۔ اخلاق سے عاری تہذیب کا رخ تباہی وبربادی کی طرف ہوجاتا ہے اور وہ فرقہ اور جماعت دونوں کو تباہ کردیتی ہے۔ مغربی تہذیب پر اقبال کی تنقید کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ لادین تہذیب ہونے کی بنا پر اخلاق سے محروم ہے۔ انہوں نے ۱۳۹۱ء کو لندن میں ایک بیان میں کہا : ’’ اہل یورپ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے مذہب و حکومت کو علیحدہ علیحدہ کردیا ۔ اس طرح ان کی تہذیب اخلاق سے محروم ہوگئی اور اس کا رخ دھر یا نہ مادیت کی طرف پھر گیا۔ اقبال نے فرمایا: ’’میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ مادیت سے بچیں۔‘‘
شخصیت کا استحکام اور ارتقا ایک اخلاقی ضابطے کا محتاج ہے۔ اس بنا پر اقبال نے آزادی افکار کو ابلیس کی ایجاد قرار دیا۔ انہوں نے مغربی تہذیب میں اخلاقی انحطاط و انتشار کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا:
بدقسمتی سے مسلمان اپنے سیاسی انحطاط، اقتصادی بحران اور فکری افلاس کی بنا پر مغربی تہذیب کے زیر اثر مغرب زدہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنی شکست خوردہ ذہنیت کے سبب اسلام کو بھی مسیحیت کے مترادف مذہب قرار دے لیا اور سیاسی ادارے سے اسے خارج یا معطل کردیا۔ چنانچہ مذہب کی جگہ قومیت کے وطنی تصور نے لے لی جس سے امت واحد کا شیرازہ بکھر گیا۔
علامہ اقبال نے زندگی بھر مسلمانوں کے دلوں سے مغربی تہذیب کے طلسماتی نقوش مٹانے کی کوشش کی تاکہ وہ اسلامی اخلاقیات سے بہرہ مند ہوں جس کی رو سے آدمیت کا مطلب احترام آدمی لیا جاتا ہے اور ساری مخلوق کا کنبہ قرار پاتی ہے۔
اقبال کے نزدیک اسلام ہی انسان کو اعلیٰ اخلاقی شعور دے سکتا ہے اور منتشر افراد کو ایک نصب العین کی صورت عطا کرسکتا ہے۔ کیونکہ ملت نصب العین کی وحدت سے معرض وجود میں آتی ہے۔ انہوں نے فرمایا:
’’اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمود ہوئے جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے اور جن سے متفرق و منتشر افراد بتدرئج متحد ہو کر ایک متمیز اور معین قوم کی صورت اختار کرلیتے ہیں اور ان کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعور پیدا ہوجاتا ہے۔۔۔ اسلامی تمدن کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح کارفرما ہے۔ ‘‘ ان کے نزدیک : ’’ دین اسلام فرد اور جماعت کے لیے اخلاقی حدود متعین کرتا ہے جس سے ایک ترقی یافتہ تہذیب اور فلاحی معاشرہ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ دین اسلام نفس انسانی اور اس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا، بلکہ ان کے عمل کے لیے حدود متعین کرتا ہے۔ ان حدود کو متعین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانون الٰہی ہے،۔‘‘
اسلام دنیوی معاملات کے باب میں نہایت ژرف نگاہ ہے، انسان میں بے نفسی اور دنیوی لذائذ و نعم کے ایثار کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے اور حسن معاملت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اپنے ہمسائیوں کے بارے میں اس قسم کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ یورپ اس گنج گراں مایہ سے محروم ہے اور یہ متاع اسے ہمارے ہی فیض صحبت سے حاصل ہوسکتی ہے۔ اعلیٰ اخلاق کا بہترین مظہر نبی کریمؐ کی ذات ہے
علامہ اقبال نے اپنے تمام کلام میں نبی کریمؐ کے ساتھ اپنی گہری عقیدت اور غیر معمولی محبت کا اظہار کرتے ہوئے حضور کے اخلاقی محاسن کو بیان کیا ہے ، تاکہ مسلمان حضور کے اخلاق کو اپنائیں اور اہل عالم کے لیے اخلاق کا عملی نمونہ پیش کریں۔ اقبال اپنی پہلی فارسی مثنوی اسراری خودی کے آغاز میں لکھتے ہیں: ’’نبی کریم کی محبت سے دل قوت حاصل کرتا ہے۔ آپ معمولی چٹائی پر سوتے تھے لیکن آپ نے اپنی امت کو تخت کسریٰ پر بٹھایا۔ آپ نے استحصالی قوتوں کی نسلوں کو ختم کیا اور دنیا کو ایک نیا زندگی بخش آئین عطا فرمایا۔ آپ نے دین کی حکمت سے امت پر دنیا کے دروازے کھول دیئے۔ مادر گیتی نے آج تک آپ جیسا کسی کو پیدا نہ کیا۔ آپ نے امیر و فقیر کو یکساں حیثیت عطا فرمائی اور اپنے غلام کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ آزادی کا درس انسان کو آپ ہی نے دیا۔