امریکہ کا نیا صدر اورعالمی حالات

خوف انسان کی ظاہری و باطنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کر دیتا ہے۔ یہ کلیہ ایک فرد سے لے کر کسی قوم، ملک اور معاشرے تک پہ یکساں لاگو ہوتا ہے۔ خوف زدہ کوئی فرد ہو یا معاشرہ، کوئی قوم ہو یا ملک، دوسروں کا دست نگر ہو کر رہ جاتا ہے۔ دنیا امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اسکی سیاسی جارحیت کا سیاسی تدبر سے سامنا کرے۔ ایسا ہو جائے تو ٹرمپ امریکی تاریخ کا غیر مقبول ترین صدر ہوگا۔ یہ پیش گوئی نہیں تجزیہ ہے۔ امریکہ اپنے عہد کے انتہائی ہنگامہ ساز صدارتی انتخابات سے گزر کر بالآخر وائٹ ہاؤس کیلئے ایک ’’فری سٹائل باکسر‘‘ صدر منتخب کرچکا ہے۔ اس پہ سالوں بحث ہوتی رہے گی کہ ٹرمپ نے تعداد میں کم ووٹ لے کر بھی سیٹ کیسے جیت لی؟ ہیلری بھی ایف بی آئی کو اپنی شکست کا ذمہ دار قرار دیتی رہیں گی، مگر تسلیم شدہ حقیقت یہی ہے کہ ہیلری نے ٹرمپ کو صدر منتخب ہونے پر نہ صرف مبارک باد پیش کی بلکہ امریکہ کے مفاد اور مضبوطی کیلئے مل کر کام کرنے کا عہد بھی کیا۔ یہ امریکی سیاست کا روشن پہلو ہے، جسے نظر انداز کرنا زیادتی ہوگی۔دنیا نے مگر یہ بھی دیکھا کہ مطلوبہ الیکٹورل ووٹ لیکر منتخب ہونیوالے ٹرمپ کیخلاف پرتشدد مظاہرے بھی ہوئے، جن کے بارے ٹرمپ نے کہا کہ یہ نا انصافی ہے اور عوام کو ٹرمپ مخالفت پر میڈیا اکسا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران جو جارحانہ بیان بازی کی تھی، غالب امکان ہے کہ وہ اس حوالے سے عملی اقدامات بھی اٹھائیں گے۔ خبر ہے کہ ٹرمپ حلف اٹھاتے ہی 30 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ بدر کر دینگے اور کئی ایک کو جیل میں ڈال دینگے۔ یہ درست ہے کہ امریکی معاملات صرف وائٹ ہاؤس ہی نہیں چلاتا بلکہ واشنگٹن، نیویارک، کانگرس اور وائٹ ہاؤس پر اثر انداز ہونے والی یہودی لابی سمیت امریکی تھینک ٹینکس کی رپورٹس مل کر حکمت عملی طے کرتے ہیں اور وائٹ ہاؤس کا مکین ان فیصلوں پر تصدیقی مہر ثبت کرتا ہے۔
امریکہ ایک تسلیم شدہ عالمی طاقت ہے، دوسرے ملکوں اور خطوں میں اسکے عیاں و پنہاں، سیاسی، معاشی اور عسکری مفادات ہیں۔ کوئی بھی طاقتور اپنی طاقت کو کم ہوتا یا اسے چیلنج ہوتا برداشت نہیں کرسکتا۔ امریکہ بھی اسی عمومی نفسیات کا شکار ہے اور وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اسے معاشی، سیاسی یا عسکری حوالے سے دنیا کا کوئی ملک چیلنج کرے۔ یہاں تک کہ اقوام عالم کے حوالے سے ہونیوالے فیصلوں میں بھی کلیدی کردار امریکہ کا ہی ہوتا ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ امریکہ نے ایسے فیصلوں کو ویٹو کر دیا، جو اس کے یا امریکہ کے اتحادیوں کے مفادات کے خلاف ہیں۔ یہ طاقت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے، جو سیاسی ہے۔ افغانستان، لیبیا، عراق، شام میں امریکہ اپنی عسکری طاقت کا اظہار کسی اور طریقہ سے کر رہا ہے اور دنیا کے کئی ایک ممالک پر معاشی پابندیاں عائد کرکے امریکہ اپنی معاشی طاقت کو ظاہر کرچکا ہے۔ ان معاشی و سیاسی پابندیوں کا پاکستان بھی شکار ہوا ہے۔ ایران بھی امریکہ اور اسکے یورپی و دیگر اتحادی ممالک کی معاشی پابندیوں کا شکار رہا۔ یمن اور پاکستان پر ڈرون حملوں کے ذریعے امریکہ اپنی عسکری طاقت کو یہاں بھی ظاہر کرچکا ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن اسکی ایک اور بھیانک مثال ہے۔اتنی طاقت اور دبدبہ کے باوجود امریکہ کو یہ خوف ہے کہ چین نہ صرف خطے، بلکہ دنیا کی ایک ایسی ابھرتی ہوئی طاقت ہے، جو آگے چل کر امریکہ سے اس کا سپر پاور کا سٹیٹس چھین لے گا۔ دنیا میں امریکہ مخالف جذبات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، جبکہ امریکہ اپنی پالیسیوں کے باعث جن دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ کیلئے نیٹو اور پاکستان کو لے کر نکلا ہوا ہے، دنیا کے بعض خطوں میں انہی دہشتگرد تنظیموں کو نہ صرف مضبوط کر رہا ہے بلکہ داعش جیسی نئی دہشت گرد تنظیمیں بھی امریکی اولاد ہی ہیں۔ مجھے اس امر میں کلام نہیں کہ دنیا کے ممالک ہمیشہ اپنے مفادات کو ہی دیکھتے ہیں، عالمی سیاست کا یہ اصول کمزور و طاقتور، سب کو اپنے تابع کیے ہوئے ہے۔مجھے اس امر میں بھی کلام نہیں کہ سفارت کاری اور عالمی و مقامی سیاست و تعلقات کا میں ماہر نہیں، نہ ہی میں کوئی دفاعی و ’’جارحانہ‘‘ تجزیہ کار ہوں۔ مگر قوموں اور ملکوں کے تعلقات کا تاریخی مطالعہ ہر صاحب فکر کو نئے زاویے سمجھاتا ہے۔ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی عالمی سطح پر محکوم ممالک تو ایک طرف، اچھے خاصے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایک طرح کی خود ترحمی کی سی کیفیت ہے۔ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک قدرے زیادہ خوف زدہ ہیں۔ بھارت میں البتہ ٹرمپ کی جیت پہ جشن منایا گیا، جبکہ روس اور شام بھی امریکہ سے ’’پرامید‘‘ ہیں۔ امریکہ کے ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کا اپنا اپنا عالمی سیاسی انداز ہے۔ دونوں کے پیش نظر مگر امریکہ کو عسکری، سیاسی اور معاشی و سائنسی حوالے سے مضبوط تر کرنا ہے۔ عالمی سیاست کے کسی طالب علم کو اس پر ضرور لکھنا چاہیے۔ وہ خوش فہم اور خوابوں کے سوداگر جو سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کے آتے ہی امریکہ کے ٹکڑے ہو جائینگے، انکے پاس اپنی خواہش کے حق میں کوئی دلیل اسکے سوا نہیں کہ داعش، القاعدہ اور طالبان ہیں نا!!! امریکہ ہو یا کوئی اور، ہر عروج کو زوال ہے، مگر یہ زوال تدریجی ہوتا ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے۔ ہاں البتہ تیسری عالمی جنگ شروع ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ تدریجی عمل کئی دھائیوں سے جاری ہے۔ اس آفت کو سوائے بہترین عالمی سیاسی فیصلوں کے اور کسی طرح نہیں ٹالا جا سکتا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...