سندھ ہائیکورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے ہمارے حکم کوغیرقانونی نہیں کہا جو دائرہ کار طے کیا اس میں رہ کر کیس سنیں گے۔ سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کے مطابق کیس کا فیصلہ کرینگے۔ درخواست گزار سکھوں کے وکیل نے کہا کہ حدود آرڈیننس کی دفعہ سترہ کے تحت غیر مسلموں کو صرف مذہبی تہواروں پر شراب فراہم کی جاسکتی ہے۔ یہاں چوبیس گھنٹے فراہم کی جا رہی ہے۔ ہمارے مذہب میں شراب حرام ہے۔ ہمرے نام پر مسلمان حاصل کرتے ہیں۔ اقلیتی برادری کے وکیل کا کہنا تھاکہ ہم تو اسمبلی میں بھی کہ چکے ہیں کہ ہمارے مذہب میں شراب حرام ہے ۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آپ نے کس قانون کےتحت شراب خانوں کے لائسنس جاری کرنا شرع کئے۔ شراب کی کھلے عام فروخت کی اجازت نہیں۔ غیر مسلم کہ رہے ہیں کہ ہمارے نام پر مسلمان شراب پی رہے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جون نہیں رینگتی۔ قانون کی خلاف ورزی اور حکومت کی طرف سے خلاف ورزی میں فرق ہے۔ آپ سپریم کورٹ کے حکم کے پیچھے پناہ لے رہے ہے۔ مسلمانوں کو شراب فروخت کرنے پرکارروائی کیوں نہیں ہوئی۔ حکومت کو ریونیومل رہا ہے،یہ دو سال میں بھی شراب خانے بند نہیں کرینگے۔ چیف سیکریٹری کو طلب کرکے ان کا بیان ریکارڈ کریں گے کہ ایسا کیسے ہوا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت سات دسمبر تک ملتوی کردی۔