خبریں آ رہی ہیں کہ بھارت کے کسی شہر میں عالمی کپ ہاکی ٹورنامنٹ کے مقابلے جاری ہیں۔ کسی نے بتایا کہ گذشتہ روز پاکستان اور جرمنی کے مابین ایک میچ بھی کھیلا گیا تھا۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس ٹورنامنٹ کو دنیائے ہاکی کا سب سے بڑا ایونٹ کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے بہترین ٹیمیں اس ایونٹ میں شریک ہیں۔کوئی بتا رہا تھا کہ دنیا کے کئی ممالک میں ان مقابلوں کو براہ راست نشر کیا جا رہا ہے۔ کسی نے پوچھا کہ اگر پاکستان میں بسنے والے اپنے قومی کھیل کے عالمی کپ ہاکی مقابلوں کو ٹیلی ویڑن پر دیکھنا چاہیں تو وہ کیا کریں۔ کسی نے بتایا کہ فلاں لنک پر کلک کریں کسی نے کہا فلاں سائٹ پر چلے جائیں کسی نے کہا کہ فلاں پیج دیکھیں۔ اسی کشمکش میں کسی نے پوچھا ہمارا سرکاری سپورٹس چینل بھی تو پاکستان اور جرمنی کے میچ کے وقت وہ کیا دکھا رہا تھا کسی نے بتایا وہ فٹبال میچ نشر کر رہے تھے۔ کوئی بتا رہا تھا پاکستان میں رہنے والے پورے عالمی کپ ہاکی میں اپنی ٹیم کو ایکشن میں دیکھنے کی خواہش دل میں دبائے رکھیں کیونکہ جنہوں نے فیصلے کرنے ہیں وہ بہت مصروف ہیں۔ کسی نے پوچھا اسکا کوئی حل ہے اسی دوران فون آیا کہ لیں جناب آپکی ٹیم پہلا میچ ہار گئی ہے یہ ٹیم بھلا عالمی کپ کیا جیتے گی جس کی ہمت پہلے میچ میں ہی جواب دے گئی ہے۔ ہمیں گولڈ میڈل سے کم کچھ نہیں چاہیے یہ ہمارا قومی کھیل ہے۔ ہماری ٹیم عالمی کپ بھی نہ جیت پائے تو کیا فائدہ۔ بھلا چار سال بعد ہونیوالے عالمی کپ میں بھی ہم آغاز ناکامی سے کریں گے پھر کہنے لگے آپ نے میچ کس چینل پر دیکھا ہے۔ یہ ہمارا سرکاری سپورٹس چینل عالمی کپ ہاکی کے میچز بھی نہیں دکھا رہا۔ یہ قومی کھیل کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہے۔ کہنے عوام تو عالمی کپ جیتنا چاہتی ہے ہو سکتا حکومت یہ کپ جیتنے میں دلچسپی نہ رکھتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ملک میں کہیں ہاکی نظر نہیں آتی ویسے ہی عالمی کپ کے میچز بھی نظر نہیں آ رہے۔ جیسے ہاکی کھیلنے والے ڈھونڈنے سے نہیں ملتے ویسے ہی قومی ٹیم کے میچز بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔۔
کہتے ہیں کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے،تاریخ بتاتی ہے کہ اس کھیل میں ہم نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں، بڑے کہتے تھے کہ اس کھیل کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کو پہچان ملی، کوئی فلائنگ ہارس بنا، کسی کو ہاکی کے میرا ڈونا کا خطاب ملا تو کوئی جادوگر کہلایا،سنتے آئے ہیں کہ کسی زمانے میں ہاکی پلیئر کو ملک میں اعلی درجے کا شہری سمجھا جاتا تھا، کہتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا تھا کہ ہاکی پلیئر کے پاس ایک وقت میں کئی محکموں میں پرکشش و مستقل ملازمت کے مواقع موجود ہوتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں نیشنل ہاکی سٹیڈیم تماشائیوں سے بھر جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ حکمران بھی اس کھیل میں خصوصی توجہ لیتے تھے۔ ہم نے عالمی کپ جیتے، اولمپکس جیتے، ایشیائی کھیلوں میں گولڈ میڈل حاصل کیے، چیمپئنز ٹرافی وطن لیکر آئے لیکن یہ سب ماضی کا حصہ ہے۔ آج حالات بدل چکے ہیں آج ہاکی کھلاڑی اپنی ملازمت، معاشی تفکرات، ڈیلی الاونسز، ان فٹ ہونے کے ڈر سے ہی نہیں نکلتا، آج والدین اپنے بچوں کو ہاکی کھیلنے کی ترغیب ہی نہیں دیتے کہ وقت اور پیسہ ضائع کرنے کا کیا فائدہ، آج کے حکمرانوں کو بھی کوئی فکر نہیں کہ قومی کھیل کو کیسے سنوارنا ہے کیسے نکھارنا ہے۔
ابھی ایک فون آیا ہے بتا رہے تھے کہ ہمارے وزیر اطلاعات فواد چودھری اسلام آباد میں کرکٹ میچ کھیل رہے تھے عین اسی روز جب قومی ہاکی ٹیم عالمی کپ کا افتتاحی میچ کھیل رہی تھی اس مناسبت سے تو انہیں ہاکی میچ کا بندوبست کرنا چاہیے تھا۔ کہنے لگے یہ وہی فواد چودھری صاحب ہیں جو مذہب، سیاسیات، معاشیات، اخلاقیات سمیت ہر معاملے پر خیالات کا اظہار فرماتے ہیں مکمل باخبر ہیں شاید قومی کھیل کے افتتاحی میچ کو بھول گئے۔ جیسے سرکاری سپورٹس چینل انتظامیہ نے اس اہم ایونٹ کو بھلا دیا، جیسے بڑے سرکاری اداروں نے اس کھیل کو بھلا دیا، جیسے قوم کے بڑوں نے اسے نظر انداز کیا ویسے ہی فواد چودھری نے اس روایت کو آگے بڑھایا ہے اب تاریخ بدل رہی بلکہ نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے اب ٹینس کے کھلاڑیوں کو بھی کرکٹ کھلائی جائے گی، اب پہلوان بھی اکھاڑوں میں کرکٹ کھیلیں گے اب سکواش کورٹس میں بھی کرکٹ راج ہو گا اب فٹبال کے کھلاڑی بھی ان سوئنگ اور آوٹ سوئنگ کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ ہم نے پوچھا کیا کہہ رہے ہیں صاحب بات تو فواد چودھری سے شروع ہوئی تھی کہاں لے گئے آپ کہنے لگے تو پھر ہمارے وزیر صاحب اس طرف توجہ بھی تو دیں کہ آخر یہ کیسی مجرمانہ غفلت ہے اس کا ذمہ دار کون ہے، ایسا کیوں ہے کہ ہم اپنے قومی کھیل کو دیکھنے سے محروم ہیں۔ فواد چودھری صاحب کی وزارت میں تو ایسا نہیں ہو سکتا اب تو جاوید آفریدی نے دوہزار بیس تک سپانسر شپ کا معاہدہ بھی کر لیا ہے کیا انہوں نے یہ معاہدہ اس لیے کیا ہے کہ انکی کمپنی شرٹس پہنے کھلاڑی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے پھر آپ کہتے ہیں کہ سپانسر شپ سے پیسے حاصل کریں اگر سپانسرز کے ساتھ ایسا سلوک ہی رکھنا ہے تو وہ کیوں ہاکی کا ساتھ دیں گے۔ ہم نے کہا بس کریں صاحب آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ امید ہے وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب کرکٹ اور سیاسی بیان بازی کے ساتھ ساتھ اس اہم مسئلے پر ضرور توجہ دیں گے۔۔۔