چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو نے سابق صدر آصف زرداری کی صحت کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی سابق صدر کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے درخواست دے گی اور امید ہے فوری اجازت مل جائے گی۔اسلام آباد میں پمز کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ڈاکٹر آصف زرداری کے ‘دل کے حوالے سے ایک رکاوٹ کی تشخیص کرنا چاہتے، زرداری صاحب نے ہمیں روکا تھا ہم ضمانت کے لیے رجوع نہیں کرسکتے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘خاندان، بہنوں اور ہم سب کے لیے مشکل لمحہ تھا اس لیے ہمیں وہ اتنا اعتماد نہیں ہے، یہاں کے ڈاکٹر قابل ہیں لیکن ہمیں زیادہ سکون ہوگا اور دوسری رائے لینے کا بھی موقع ملے گا’۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘آج زرداری صاحب نے آصفہ بھٹو کی درخواست کو مانا ہے اور پاکستان پیپلزپارٹی صدر زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے رجوع کرے گی اور کل جب ہم حتمی درخواست جمع کرائیں گے تو امید ہے کہ جلد از جلد ضمانت مل جائے گی’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘امید ہے کہ جب ہم رجوع کرتے ہیں تو جلد ضمانت ملے گی تاکہ وہ جلد از جلد ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ٹیسٹ ہوسکیں اور اس کا اچھا نتیجہ نکلے گا اس کے ساتھ ہم زرداری صاحب کی صحت کے حوالے سے دعا گوہ ہیں’۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ ‘ملک کی سیاسی صورت حال پر بھی آصف زرداری سے بات ہوئی اور وہ اپنے موقف پر قائم ہیں اور اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آصف زرداری آج بھی اپنے موقف اور اصول پر قائم ہیں کہ پی پی پی اپنے نظریے اور منشور پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے چاہے وہ اٹھارویں ترمیم ہو یا جمہوریت اور میڈیا کی بات ہو پی پی پی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے’۔بلاول نے کہا کہ ‘ہم پی پی پی کے یوم تاسیس کا جسلہ کشمیر میں رکھا تھا جو کامیاب رہا، اب تاریخی فیصلہ کیا ہے کہ 27 دسمبر کو بینظیر بھٹو کی برسی پیپلز پارٹی لیاقت باغ میں منائے گی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ’27 دسمبر کو ایک مرتبہ پھر لیاقت باغ سے پی پی پی کی طرف پورے ملک اور دنیا کے سامنے لے کر آئے گی کہ پی پی پی سمجھتی ہے کہ طاقت کا سرچشمہ صرف اور صرف عوام ہیں اور پیپلز پارٹی یہ جدوجہد آخری دم تک لڑتی رہے گی جب تک ہم اس ملک کے تمام تر جو طاقت ہے وہ عوام کو منتقل نہیں کرتے’۔آصف زرداری کے آپریشن کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ‘دل کا ایک پروسیجر ہے اس کے ساتھ دیگر بھی ہیں لیکن ہمارا زور دل کے پروسیجر پر ہے، ڈاکٹروں نے دل اور ایک اور پروسیجر پر زور دیا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم سب اور پورا ملک سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے منتظر ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ واضح گائیڈلائنز دی جائیں گی کیونکہ سپریم کورٹ نے اٹھارویں ترمیم کے کیس میں تجاویز دی تھیں تو پارلیمنٹ کو رہنمائی ملی تھی’۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘پاکستان پیپلز پارٹی جن وکیلوں سے مشورہ کیا ہے ان کی رائے ہے کہ ایک آئینی ترمیم لانا پڑے گی اور جب سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آئے گا تو مزید وضاحت ہوگی’۔
آئینی ترمیم کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ ‘پیپلزپارٹی کا کردار مثبت ہوگا، ہم چاہیں گے کہ اتفاق رائے ہو لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارے وزیراعظم جیسے پہلے اتفاق رائے نہیں چاہتے تھے جس طرح کشمیر، معیشت، جمہوریت اور گورننس پر اتفاق رائے پیدا نہیں کرپائے اسی طرح اس معاملے پر بھی اتفاق رائے نہیں بنانا چاہتے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر جو ردعمل دیا تھا اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم اپوزیشن کے اراکین کو مشتعل کرنا چاہتا ہے اور وزیراعظم سے ہم کوئی امید نہیں رکھ سکتے’۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘جو حکومت تین مہینے میں ایک نوٹی فکیشن نہیں بناسکی اور 15 مہینوں میں ایک قانون نہیں بنا سکی، جب آئینی ترمیم ہونی ہے تو مجھے بڑا مشکل لگتا ہے کہ یہ حکومت 6 مہینے کے اندر اتفاق رائے بھی پیدا کریں گے اور ترمیم بھی کریں گے’۔انہوں نے کہا کہ ‘یہ عمران خان کی حکومت کا سب سے بڑا ایک ٹیسٹ ہوگا لیکن میں سمجھتا ہوں اور ان کے رویے اور باتوں سے لگتا ہے کہ یہ ایک غیر سنجیدہ وزیراعظم ہیں، ہر چیز کو غیرسنجیدگی سے لیا ہے اور وزیراعظم کے کردار سے ہر ادارے پر منفی اثر پڑا ہے’۔چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ‘جس طریقے سے وزیراعظم چل رہا تو میں سمجھتا ہوں کہ پہلے نیا وزیراعظم ہوگا پھر آئینی ترمیم ہوگی’۔الیکشن کمیشن کے اراکین کے انتخاب سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ رہبر کمیٹی اور اے پی سی میں یہ بات ہوئی تھی ایک ذیلی کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں پی پی، ایم ایم اے اور مسلم لیگ (ن) کے اراکین تھے جس نے تین نام چنے تھے اور مسلم لیگ (ن) نے مشاورت کے بعد نام تجویز کیے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلزپارٹی پر فارن فنڈگ کے الزام مکمل طور پر جھوٹے ہیں اور اس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ثبوت بھی آئیں گےاور بری ہوجائیں گے اگر کوئی کیس ہے تو صرف اور صرف تحریک انصاف کا ہے کیونکہ ان کے اپنے رکن ثبوت باہر لے کر آئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘تحریک انصاف کا اپنا بانی رکن اور مالی امور سے متعلق رکن ان ثبوت کو باہر لے کر آئے ہیں کہ فلاں فلاں ٹرانزیکشنز بھارت کے سابق وزیر، اسرائیل کی ایک کمپنی اور مختلف بیرونی ذرائع سے پی ٹی آئی کو فنڈز آئے ہیں’۔پی ٹی آئی کے فارن فنڈنگ کیس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ کیس الیکشن کمیشن میں کب سے چل رہا ہے، نہ کوئی فیصلہ آیا ہے اور نہ پی ٹی آئی کا جواب آیا ہے اور اس عمل کو کھینچنے کی کوشش کی اور جواب نہیں دے پائے تو باقی جماعتوں پر بھی الزام لگائے ہیں’۔