15ستمبر 2003ء ریڈیو پاکستان کے تربیتی مرکز اسلام آباد میں میری حاضری کا پہلا دن تھا جہاں ملک بھر سے بطور پروگرام پروڈیوسر منتخب دیگر احباب بھی عرصہ دو ماہ کیلئے ابتدائی تربیت کی غرض سے اکٹھے ہورہے تھے۔لاہور سے اس ’’بیج‘‘ میں میرے ساتھ اکمل شہزاد گھمن اور نائیلہ سید بھی تھیں مگر اکمل شہزاد گھمن سے ایک رسمی ملاقات کے علاوہ نائیلہ سید سمیت پورا ’’بیج‘‘ میرے لئے اجنبی تھا۔ گو اکیڈمی آنے سے پہلے اکمل شہزاد گھمن نے اپنے تئیں کسی ماہر نفسیاتی معالج کے انداز میں میری اس تشویش کوایک ’’نویدِ جانفزا‘‘ سے دور کرنے کی ایک اپنی سی کوشش ضرور کی مگر اکیڈمی میں آمد کے پہلے روز ہی ان’’طفل تسلیوں‘‘ کی حقیقت اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب رات کے کھانے پر سبھی ’’جن و انس‘‘ ڈائننگ ہال میں ایک ساتھ جمع ہوئے۔ پورے بیج میں میرے سمیت سوائے دو چار احباب کے اکثریت ایسے لمبے چوڑے اور کھلے ڈُھلے ڈیل ڈول کے حامل افراد پر مشتمل تھی جن پر کسی پروڈیوسر سے زیادہ ورلڈ ریسلنگ فیڈریشن کے پہلوانوں کا گمان ہوتا تھا۔اکمل شہزاد گھمن توفوراََ ہی اُن میں یوں گھل مل گیا ۔ میری حالت اس وقت ایسی ہورہی تھی جیسے کسی ناکردہ جرم کی سزا میں ایک بے گناہ کو اپیل کے حق سے محروم کر کے اسے بامشقت عمر قید سنا کر خطرناک قیدیوں کی جیل میں بھیج دیا ہو۔اگلے روز کلاس روم میں تعارف کا سلسلہ شروع ہوا تو چوڑے ڈیل ڈول،گھنی مونچھوں،سرخ آنکھوں، تنی گردن اور گندمی رنگت پر کھلے پائنچوں کی مائع لگی لٹھے کی شلوار قمیص کے ساتھ لاڑکانہ سندھ کا ایک لڑکا عابد کاظمی مجھے پہلی نظر میں پاکستان ٹیلی ویژن کراچی سے پیش کی جانیوالی یادگار ڈرامہ سریل ’’دیواریں‘‘ کا مرکزی کردار ہاشم لگا جسے مرحوم منصور بلوچ نے اس خوبصورتی سے ادا کیا تھا کہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہے۔وہی انداز،وہی لہجہ،وہی تمکنت اور بڑی حد تک ملتا جلتا ناک نقشہ بس اسکے ہاتھ میں ایک کلہاڑی اور سر پر سندھی ٹوپی یا کندھے پر رکھی سندھی اجرک کی کمی تھی۔مجھے لگا یہ نوجوان اپنے مزاج کے برعکس اپنے لئے غلط شعبے کا انتخاب کر بیٹھا ہے۔ میرے خیال میں اپنے قد کاٹھ ،حلیے اور غصیلے انداز کے باعث اسے اندرون سندھ خطرناک ڈاکوئوں کے کسی گروہ کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔ میں نے ایک نظر اسکے اطراف میں بیٹھے نثار مگسی اور وسند علی مہر پر ڈالی دیکھنے میں وہ بھی کسی ڈاکو سے کم تر نہیں دکھائی دے رہے تھے۔مجھے حیرت اور شرمندگی کا پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب ابتدائی تعارف میں عابد کاظمی نے اپنے ادبی حوالوں کے ساتھ یہ بتایا کہ اس نے ایم ایس کیمسٹری، ایم اے اردو اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔کچھ فرق کے ساتھ دیگر پروڈیوسرز کی ڈگریوں کی تفصیل بھی تقریباََ ایسی ہی تھی حتیٰ کہ اکمل شہزاد گھمن نے بھی یہ بتا کر سب کو پریشان کردیا کہ وہ پنجابی،اردو میں ایم اے کے ساتھ نمل یونیورسٹی سے انگریزی زبان کا ڈپلومہ ہولڈر اور پنجابیوں کہانیوں کی کتاب’’ ایہہ کہانی نہیں ‘‘ کا مصنف بھی ہے۔اکمل شہزاد گھمن کے پنجابی اور عابد کاظمی کے اردو ادب سے بھرپور تعلق نے میرے لئے ان دونوں احباب میںخاص طور پر دلچسپی بڑھا دی کیونکہ ایک طالبعلم کے طور پرپنجابی اور اردو ادب میں میری بھی خاصی دلچسپی تھی اور اس وقت تک ان دونوں زبانوں میں میرے دو شعری مجموعے ’’کون دلاں دیاں جانے‘‘ اور ’’اب بھی پھول کھلتے ہیں‘‘ چھپ چکے تھے۔رفتہ رفتہ ہمارے مابین ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھا تو مجھ پر کھلا کہ با ہر سے کسی چٹان کی طرح سخت ،کھردرا اور مغروردکھائی دینے والا یہ شخص عابد کاظمی محبت کی مٹی سے گوندھا، اپنے اندر ایک ریشمی احساس لئے انکسار سے بھرا ہوا انتہائی نفیس اور پیارا انسان ہے جسے دوسروں کے دل میں اُترنے اور انہیں اپنانے کا ہنر بھی خوب آتا ہے۔ تربیتی کورس کے آخری روز میں نے کلاس روم میں سب دوستوں کے سامنے پورے سیاق و سباق کے ساتھ عابد کاظمی سے اُسکے متعلق اپنے ’’پہلے تاثر‘‘ کے حوالے سے باقاعدہ معافی مانگی جس پر اکمل شہزاد گھمن سمیت وہاں موجود دیگر ’’ڈاکوئوں‘‘ نے ایک زوردار قہقہہ لگایا جس میں سب سے بلند آواز خود عابد کاظمی کی اپنی تھی۔
محبت کی مٹی سے گوندھا سندھی مانو!عابد کاظمی
Dec 02, 2020