مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں

حدیث نبویﷺ ۔
مفہوم۔  ’’ماں کا حق ادا کرتے رہو، قسم ہے اللہ کی اگر تم اپنا گوشت کاٹ کربھی اسے دے ڈالو تب بھی اس کا چوتھائی حق ادا نہ ہوگا‘‘۔
 یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ہر خاندان کی بنیاد ماں ہوتی ہے۔ ماں کے بغیر گھر گھر نہیں بلکہ ویران جنگل کی مانند محسوس ہوتا ہے ۔ماں اللہ تعالیٰ کا ایسا عطیہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں اور ماں ہی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بعد اپنی اولاد کے دل کا حال بہت جلد جان لیتی ہے۔ ماں کی محبت کا ندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو ماں کی محبت سے تشبیہ دے کر کہا ہے کہ میں اپنے بندے سے ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہوں۔انسان دنیا میں ہر رشتہ دوبارہ حاصل کر سکتا ہے مگر ماں باپ جیسا رشتہ صرف ایک بار ملتا ہے۔ ماں باپ کی اہمیت کے بارے میں قرآن کی آیت ملاحظہ فرمائیں۔’’اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اسکے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اِن سے اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اِن سے بات ادب کے ساتھ کرنا‘‘۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اسکے ساتھ خیر خواہی کروں؟ آپ نے فرمایا تیری ماں۔ پھر عرض کیا؟ آپ نے فرمایا تیری ماں۔ پھرعرض کیا ؟ تیری ماں۔ پھر عرض کیا ؟ تیرا باپ۔ ( امام بخاری اور مسلم شریف نے روایت کیا ہے)  وزیر اعظم عمران خان کی والدہ کا انتقال کینسر کی وجہ سے ہوا تو عمران خان کو اِسی دکھ نے ہمت دی کہ انہوں نے دِن رات ایک کرکے اپنی والدہ کے نام سے شوکت خانم کینسر ہسپتال قائم کیاکیونکہ جس مرض کے ساتھ اُن کی والدہ کی وفات ہوئی عمران خان چاہتے تھے کہ کسی اور کی ماں اس تکلیف سے وفات نہ پائے۔ یہ اُن کا اپنی والدہ کے ساتھ محبت کا اظہار تھا ۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ کی وفات 22 نومبر کو لندن میں ہوئی ۔ نواز شریف جب جیل میں تھے تو ہفتے میں ایک بار اُن سے ملاقات کی اجازت ہوتی تھی ۔شمیم آپا جب بھی ملاقات کے لئے جیل جاتی تو وہ واپس جانے سے انکار کردیتی کہ میں بھی جیل میں نواز کے ساتھ رہوں گی اُن کو بڑی مشکل سے سمجھا کر واپس بھیجا جاتا کہ ماں جی یہ جیل ہے ادھر ہر کوئی نہیں رُک سکتا۔یہ تھی مامتا ، ایک ماںکی محبت، سب محبتوں سے بھاری اور گہری محبت ۔ جب میاں نواز شریف جیل میں بیمار ہوئے تو وہ لندن چلے گئے تو بیگم صاحبہ بھی اپنے بیٹے نواز شریف کے پاس چلی گئی ۔ ماں کو تو اپنی ساری ہی اولاد پیاری ہوتی ہے لیکن نواز شریف کے ساتھ اُن کی محبت کچھ زیادہ ہی تھی ۔ بیگم شمیم اختر اپنے اندر بہت سے غم لیکر اس دنیا فانی سے چلی گئیں۔ جب خاوند کا انتقال ہوا توپورا خاندان جدہ میں جلا وطن تھا بیٹے اپنے والد کی آخری رسومات میں شرکت نہیں کرسکے۔ جوان بیٹے عباس شریف کی وفات بھی ایک ماں کیلئے بہت بڑا غم تھا ۔بڑی بہو کلثوم نواز کی وفات وہ بھی اُس وقت جب بیٹا اور پوتی اڈیالا جیل میں تھے تو اُس ماں کے غم کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اب جب خود اس دنیا سے رخصت کا وقت آیا تو شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیل میں اور باقی فیملی دوسرے کیسزز میں مبتلا تو اُس ماں کے دل کی کیفیت کیا ہو گی ۔جاتی عمرہ کے قبرستان میں میاں شریف ، بیگم کلثوم نواز،عباس شریف کے بعد اب ایک اور قبر کا اضافہ ہوگیا ہے۔
22نومبر کوجیسے ہی اِنکی وفات کی خبر میڈیا کی زینت بنی مسلم لیگ کی طرف سے عطاء اللہ تارڑ کی جانب سے 15 دن کی پیرول پر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی رہائی کی درخواست دی گئی لیکن یہاں بھی سیاست اڑے آئی پنجاب حکومت نے صرف پانچ دن کی پیرول پر رہائی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو دی جو جمعہ کے دن سے شروع ہوئی۔میں نے جنازے میں شرکت کی لیکن رش کی وجہ سے میاں شہباز شریف صاحب سے تعزیت نہیں کر سکا تھا۔ ہفتے کی رات جاتی عمرہ میں اُن سے تعزیت کیلئے پہنچا تو اُن کا کہنا تھا کے ہم پر ایک کڑا وقت ہے بس دعا کریں ہم ثابت قدم رہیں اور میاں نواز شریف کی صحت کیلئے دعا بھی کیا کریں۔  شہباز شریف کا کہنا تھا جب نعمتیں بڑی ہوں تو ازمائشیں بھی بڑی ہوتی ہیں ۔ مریم نواز سے ملاقات میں بھی وہ پریشان تھیں مسلسل لوگوں سے  میاں نواز شریف کیلئے دعا کی اپیل کر رہی تھی ۔شہباز شریف کے چہرے سے ماں کی جدائی کے اثرات صاف نظر آرہے تھے ۔یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اولاد چاہے بو ڑھی ہو جائے ماں کی ضرورت ہر عمر میں ہوتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن