’’کلام سعید‘‘ پر متعدد تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ سبھی نے اپنے اپنے اندز میں سعید آسی کے اردو اور پنجابی کلام پر روشنی ڈالی۔ عارفہ صبح خان کے ’’کلام سعید‘‘ پرلکھے گئے کالم کے ایک فقرے پر میں چونکا ’’پنجابی شاعری مجھے پڑھنی نہیں آتی‘‘ سعید آسی کا زیادہ کلام پنجابی زبان میں ہے۔ عارفہ صبح خان لاہور کی وسینک ہیں۔ اس نے اردو کے علاوہ انگریزی زبان بھی سیکھی اور پڑھی۔ پنجابی ایک زندہ زبان ہے۔ اسکی ہزاروں برس کی لسانی اور کم و بیش ایک ہزار برس کی ادبی روایت ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانیوالی اور زندہ زبان پنجابی ہے۔ بابا فرید سے لیکر خواجہ غلام فرید تک سبھی نے پنجای میں شاعری کی۔ علامہ اقبال بھی پنجابی شاعری کے قدردان تھے۔ 1930ء میں علامہ اقبال کا ایک پنجابی رسالے ’’سارنگ‘‘ میں انٹرویو شائع ہوا۔ برصغیر کے اس عظیم شاعر، فلاسفر، مفکر اور دانشور نے پنجابی شاعری کے بارے میں اپنے انٹرویو میں کہا ’’پنجابی شاعری دی خاصیت ایہہ اے کہ ایہدے وچ دیس پیار تے جوش دوان والے گیت نیں۔ فوجی گیتاں دا وی گھاٹا نہیں۔ عام لوکاں دیاں بولیاں تے گیتاں دا وی کوئی انت نہیں۔ اردو شاعری وچ تصوف دی شاعری ہے ای نہیں، سوائے خواجہ میر درد دے کلام دے۔ نہ اردو وچ وطن دے پیار دی شاعری اے تے نہ ای ایہدے وچ فوجی گیت نیں۔ اردو عشقیہ شاعری وچ بناوٹ زیادہ ، جذبات دا زور گھٹ اے۔ عام لوکاں دے گیت تے بولیاں بالکل کوئی نہیں۔ ایہدی وجہ ایہہ وے جو اردو شاعری درباراں دے امیراں تے مصاحباں دے ہتھ جمی پلی۔ اوہ لوک یا تے ایرانی سن یا فارسی مذاق دے پریمی سن۔ اوہناں دا عام لوکاں نال کوئی میل جول نہیں سی۔ ایس لئی اردو شاعری وچ امیرانہ رنگت آ گئی سی‘‘ ۔ علامہ اقبال کے ان فقروں کے بعد عارفہ صبح خان کو پنجابی زبان بھی سیکھنی اور پڑھنی چاہیئے تاکہ وہ پنجابی کے قدیم صوفی شاعروں کے علاوہ حال کے صوفی سعید آسی کا پنجابی کلام بھی پڑھ اور سمجھ سکے۔ انتظار حسین نے کہا تھا کہ ’’ہم طویل عرصہ سے لاہور میں مقیم ہیں۔ ہمیں لاہوریوں کی زبان پڑھنی اور بولنی چاہئیے‘‘ ’’کلام سعید‘‘ پڑھنے کی سعادت سے اب تک محروم ہوں مگر سعید آسی کا پنجابی کلام تقریباََ پڑھ چکا ہوں۔ سعید آسی کی شخصیت اور فن سے آگاہی کیلئے ان کا پنجابی کلام پڑھنا ضروری ہے۔ اسکے بغیر آپ ان کی شخصیت اور فکر کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ عارفہ صبح خان نے لکھا کہ ’’میرے لیے بہت آسان ہے کہ میں سعید آسی صاحب کی شاعری پر حتمی رائے دے سکوں کیوں کہ ان سے رفاقت کا سفر 22 سالوں پر محیط ہے‘‘
وہ حتمی رائے کس طرح دے سکتی ہے جبکہ سعید آسی کی پنجابی شاعری اسے پڑھنا نہیں آتی۔ عارفہ صبح خان نے 22 سالہ رفاقت کا ذکر کیا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ سعید آسی صاحب سے میری رفاقت اس سے ڈبل یعنی 44 سال پر محیط ہے۔ یہ رفاقت 1976ء سے تاحال اور انشاء اللہ تاحیات رہے گی تب وہ محلہ پیرکریاں پاکپتن میں مقیم تھے اور رابطہ خط کتابت سے شروع ہوا۔ وہ میرے ہر خط کا جواب ضرور دیتے۔ میں پنجابی میں خط لکھتا۔ آسی صاحب بھی پنجابی میں یا پھر کبھی اردو میں جوابی خط لکھتے۔ شاعری کے علاوہ صحافت میں بھی ان کا بلند مقام ہے۔ ’’نوائے وقت‘‘ میں اداریہ لکھتے ہوئے اور سیاسی تجزیاتی کالم لکھتے ہوئے انھیں طویل عرصہ ہو گیا ہے۔ آسی صاحب کے 1976ء اور 1977ء میں لکھے گئے خطوط پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت بھی ان کا سیاسی شعور اس قدر پختہ تھا کہ میں داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سعید آسی نے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ چند ماہ وکالت کی مگر طبیعت وکالت سے اکتا گئی اور وہ صحافت کی طرف آ گئے۔ تقدیر نے ان کیلئے یہی پیشہ لکھا تھا کہ وہ قوم کی راہنمائی کر سکے اور اس کا حق انھوں نے پوری طرح ادا کیا۔ ان کا پنجابی سے محبت کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ روزنامہ ’’آزاد‘‘ میں سٹاف رپورٹر تھے تو ’’آزاد‘‘ کا ہفتہ وار پنجابی ایڈیشن شائع کرنے کیلئے مسعود منور اور آزاد کوثری سے بات کی جو شعبہ میگزین سے وابستہ تھے۔ مسعود منور بعدازاں ناروے چلے گئے اور وہیں مستقل قیام ہے جبکہ آزاد کوثری وفات پا چکے ہیں۔ جسٹس (ر) سید افضل حیدر صاحب نے 1988ء میں بابا فرید کے نام سے ’’گنج شکر اکیڈمی‘‘ کی بنیاد رکھی تو سعید آسی کو صدر اور راقم کو سیکرٹری چنا گیا۔ چیئرمین سید افضل حیدر تھے۔ ’’نوائے وقت‘‘ میں لکھے گئے میرے کالموں کا انتخاب ’’یادیں‘‘ شائع ہوا تو فلیپ سعید آسی صاحب نے لکھا۔ میرے بارے میں لکھے گئے انکے فقروں کو میں اپنا اعزاز سمجھتا ہوں۔ سعید آسی نے لکھا ’’تنویر ظہور سے وابستہ یادوں کے کس پہلو کو اجاگر کروں اور کس سے صرف نظر کروں۔ میں انکے ساتھ ہمہ وقت کے خوشگوار تعلقات کی بندھی ہوئی گرہ میں کوئی کمزوری در آنے کا ہرگز روا دار نہیں ہو سکتا، اس لیے انکی زندگی کے ہر پہلو کو مفصل احاطہ کا عہد کرتے ہوئے آج صرف یہ گواہی دے رہا ہوں کہ تنویر ظہور اس دھرتی سے جڑے انسان کی جزئیات تک کی خبر رکھتے ہیں اور اسکے اظہار میں بھی کبھی بخیلی سے کام نہیں لیتے۔ انکے ساتھ نیاز مندی سے دوست داری تک پھیلے اپنائیت والے تعلقات چار دہائیوں پر محیط ہیں‘‘ ۔