مکرمی! ہمارے ایک بزرگ موصوف قمر تسکین مرحوم ہوا کرتے تھے۔ وہ موصوف جب گھر سے چلتے تو ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی پوٹلی ہوا کرتی تھی۔ اس پوٹلی میں دو چپاتی اور ایک اچار کی خش ہوا کرتی تھی۔ وہ موصوف اس خاکسار کو مخاطب کر کے کہتے بھائی امتیاز لنگر خانہ حاضر ہے۔ جواب میں یہ خاکسار ان کا شکریہ ادا کرتا تو وہ اُداس ، غمگین ہو جایا کرتے تھے اور پھر باتوں باتوں میں اس خاکسار کے والد ماجد المعروف ’’فردوس رحمانی‘‘ محمد علی خان ترین مرحوم کا ذکر کرتے‘ وہ موصوف مذکور نہایت انکساری کے ساتھ کہتے بھائی امتیاز آپ کے والد گرامی ایک ممتاز ادیب ہوا کرتے تھے ۔ یہ چند جملے کہنے کے بعد موصوف کھانسی سے ہلکان ہو جایا کرتے تھے۔ وہ دمہ کے مریض تھے ۔ دراصل وہ موصوف (قمر تسکین) اس خاکسار کے بڑے بھائی ذوالفقار علی خان ترین مرحوم کے دوست احباب میں شامل رہے تھے۔ اس خاکسار کے بڑے بھائی مذکور جب وہ ’’فلمی دنیا‘‘ سے وابستہ تھے تو ان کا نام نواز ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے اپنے زمانہ کی خوبصورت فلمی کہانیاں لکھیں ، جھومر، کوٹھی ، زہرِ عشق ، اور انتظار ان تمام فلموں نے اچھی خاصی شہرت پائی تھی۔ اس زمانہ کے قتیل شفائی نغمہ نگار خورشید انور موسیقار اعجاز دورانی فلمی اداکار اور محمد یوسف خان فلمی اداکار اور ملکہ ترنم نور جہاں کے علاوہ اور بھی کئی حضرات ان کے دوست احباب میں شامل ہوا کرتے تھے۔ اس خاکسار کے والد ماجد المعروف فردوس رحمانی (محمد علی خان ترین مرحوم) کا شمار کہنہ مشق ادیبوں میں ہوا کرتا تھا اور آپ نے کھیلوں پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں تھیں جو کہ آج بھی حکومت پاکستان کی بڑی بڑی لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔ آپ افواجِ پاکستان بطور سویلین کے ملازم رہے تھے اور اسی محکمہ سے ریٹائرڈ بھی ہوئے تھے۔ (امتیاز علی خان، نسبت روڈ لاہور)