موروثی سیاست اور شخصیت پرستی۔۔۔ !! 

Dec 02, 2020

سارہ لیاقت

ہمارے ہاں سیاست میں موروثیت کے کامیابی سے پنپنے کی سب سے بڑی وجہ شخصیت پرستی ہے ۔ شخصیت پرستی دراصل خود ایک بہت بڑا دھوکہ ہے جو انسان سے ہر طرح کی غور و فکر ، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتا ہے اور انسان اس دھوکے سے اس وقت ہی باہر آتا ہے جب کافی نقصان اٹھا چکا ہوتا ہے لیکن اس وقت اسکے پاس شرمندگی اور اذیت کے سوا کچھ نہیں بچتا کہیں پڑھا تھا کہ ’’ اپنی پسند کے معیار کو اتنا حاوی مت کر لیں کہ شخصیت پرستی کے مندر میں انسان کی بجائے صرف بت رہ جائے ــ‘‘۔ پاکستان کی سیاست پچھلے ستر سالوں میں مخصوص پارٹیوں اور گھرانوں کے ہاتھوں میں یوں یرغمال نظر آتی ہے جہاں ایک عام سیاسی ورکر ساری زندگی محنت کے باوجود ور کر ہی رہتا ہے ۔ ہماری غلامانہ سوچ کی حد ہے کہ ہمارے قلمکار ، اینکر حضرات انہی ماضی کے صاحب اقتدار گھرانوں کے و ارثوں میں سے کبھی ایک کولیڈر ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں اور جب یہ کمپنی نہیں چلتی تو وہ دوسرے کو مستقبل کے عظیم سیاسی رہنما کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ 
ان پارٹیوں میں سیاسی قائدین کا اس قدر قحط ہے کہ اگر نوازشریف صاحب ملک سے فرار ہو گئے ہیں تو شہباز کو لے آوٗ ، شہباز شریف صاحب گرفتار ہو گئے ہیں تو مریم بی بی کو مریم صفدر سے مریم نواز بنا کے قائد محترم کے طور پر پیش کر دو کل کو اگر کسی وجہ سے وہ دستیاب نہ ہوں تو حمزہ شہباز ، صفدر اعوان یا جنید صفدر تو ان کی جگہ پر کرنے کیلئے ہیں ہی دوسری طرف یہی حال بھٹو خاندان کا ہے ۔ بھٹو صاحب پھانسی کی سزا پاتے ہیں تو انکی جگہ انکی بیٹی بے نظیر کوملتی ہے وہ وفات پاتی ہیں تو پی پی پی زرداری کو لیڈر بنا کے پیش کر دیتی ہے ۔ انکی صحت خراب ہوتی ہے توقرعہ فال بلاول زرداری کو جن کے نام کے ساتھ بھٹو لگا کے عوام کا حقیقی نمائندہ بنا کے سیاست کے میدان میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور اب جو وہ پشاور جلسے کے بعد کورونا کا شکار ہوئے ہیں انکے کورونا ٹیسٹ کے مثبت آ جانے کے بعد ملتان کے جلسے کیلئے زرداری صاحب کی نظر انتخاب محترمہ آصفہ زرادری صاحبہ پہ ٹھہری ۔ پی پی پی جو کہ پچھلی کئی دہائیوں سے میدان سیاست میں سرگرم عمل ہے جس نے پاکستانی سیاست کو بڑے بڑے نام دیے جیسے کہ اعتزاز احسن ، رضا ربانی ، قائم علی شاہ ، خورشید شاہ ، یوسف رضا گیلانی ، قمر الزماں کائرہ ، مولا بخش چانڈیو سمیت کئی اور نام جو ہمیں پی پی پی کا لازمی جزو نظر آتے ہیں اور ان کا شمار سینیئر اور تجربہ کار سیاستدانوں میں ہوتا ہے کوئی بھی زرداری صاحب کو اس قابل نہ لگا جو پی پی پی کی قیادت کو سنبھال سکے اور ہمارے یہ بزرگ سیاستدان آج کے ان موروثی نوجوا ن قائدین کے پیچھے مودبانہ ہاتھ باندھے ہماری موجودہ سیاست کی تلخ حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اسی طرح مسلم لیگ ن میں جاوید ہاشمی ، چوہدری نثار علی خان ، خواجہ آصف ، شاہد خاقان عباسی ، احسن اقبال ، رانا تنویر ، خواجہ سعد رفیق کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں بڑے ناموں میں سے نوازشریف صاحب کو کوئی بھی ایسا قابل اعتبار ساتھی نہیں ملا جو انہیں بھی پارٹی کی وارث صرف اپنی بیٹی ہی نظر آئی ۔ اسی طرح پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کو دیکھ لیں تو اے این پی جو کہ عبدالولی خان صاحب کے ہاتھ سے نکل کر بیگم نسیم ولی اور پھر اسفندیار ولی سے ہوتے ہوئے ایمل ولی تک پہنچ گئی ہے ۔ جمعیت علماء اسلام مولانا مفتی محمود سے ہوتے ہوئے فضل الرحمن انکے بھائیوں کے بعدمستقبل میں بیٹے اسد محمود کے ہاتھوں میں جانے کو تیار ہے ۔ 
ملتان کا جلسہ جس کا بہت شور تھا اس میں بھی صرف موروثیت اور اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کیلئے حکومت کو للکارنے کے سوا کچھ نہ تھا ۔ انکے خاندانوں نے اس ملک کیلئے آج تک کیا کیا ہے ۔ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کی حالتیں ان پارٹیوں کی اپنے ووٹروں کے ساتھ بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔کورونا کے انتہائی خطرے کے سائے میں اپوزیشن جماعتوںکے جلسوں کا فائدہ اپنی سیاست کی رنگ بازیاں دکھانے کے سوا کچھ نہیں ۔ عوامی مسائل سے لاتعلق یہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ اگر آج کے ا س مہنگائی کے دور میں کسی گھر میں خدانخواستہ بیماری آجاتی ہے تو وہاں زندگی کس طرح سسکتی ہے ۔ سنا تھا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور کورونا کے بڑھتے ہوئے مریض اور روز بروز مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھ کر اس بات پہ یقین بھی آجاتا ہے۔اس وقت ملک کے کم از کم تین بڑے شہروں میں کورونا کے مریضوں کی مثبت شرح پندرہ فی صد سے تجاوز کر چکی ہے ۔ آج سے چھے ماہ پہلے جب کوروناکی پہلی لہر کی لپیٹ میں سارا ملک تھا اس وقت یہی لیڈرمکمل لاک ڈائون کے حق میں دلائل دیتے نظر آتے رہتے تھے اور آج چونکہ ان کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع مل رہا ہے توبلاول بھٹو کے کورونا کے شکار ہونے کے باوجود اسی کورونا سے احتیاط کو حکومت کا ڈرامہ قرار دے رہے ہیں۔میرا اس ملک کی عوام سے کہنا ہے خدار ا کورونا کو سنجیدہ لی جیئے اور گھروں میں رہیے ، محفوظ رہیے۔ دوسری طرف پاکستان میں جمہوریت کی سب سے بڑی کمزوری موروثی اور ذاتی مفاد کی سیاست ہے جو عوام کی امیدوں پر جب پانی پھیرتی ہے تو وہ مسیحائی کیلئے دوسری جانب دیکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اگر ہم نے واقعی اس ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو بڑی بڑی پارٹیوں کے موروثی قائدین کو بت بنا کے پوجنے کی بجائے ایک عام آدمی کو بنا کسی کے غلام بنے آگے آنے کا موقع دینا ہو گا جس دن ہم نے موروثیت اور اشرافیہ کے ہاتھ سے سیاست کی ڈوری لے کے ایک عام آدمی کے ہاتھ میں پکڑا دی تو وہی ہمارے ووٹ کی عزت بھی ہو گی اور اس ملک کی تعمیر و ترقی کی ضامن بھی۔ 

مزیدخبریں