کے ایم سی امیج ریسٹوریشن کمیٹی  اورکراچی امیج ریسٹوریشن

Dec 02, 2020

کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی درستی اسوقت ایک بڑا چیلنج ہے۔ کراچی کے لئے گیارہ سوارب روپے کے پیکیج کے اعلان کے باوجود کراچی میں ترقی نظر نہیں آتی۔ گزشتہ چار سالہ بلدیاتی منتخب قیادت کے ہونے کے باوجود کراچی تنزلی کی جانب ہے جسکی وجوہات اختیارات کی کمی کہی جاتی ہے لیکن کراچی کے لئے مخلص اور بے لوث افراد کی ضرورت ہے۔ اسوقت سرکاری ایڈمنسٹریٹر ہیں ۔ انہیں یہ بار اٹھانا پڑے گا  تاکہ کراچی کے بنیادی مسائل حل ہوں۔ تاہم اختیارات اور ایڈمنسٹریٹر کو واٹر سیوریج بورڈ، ایس بی سی اے ، کے ڈی اے، سالڈ ویسٹ اور اہم اداروں میں نمائندگی دیئے بغیر کراچی کی ترقی ممکن نہیں ۔ فنڈز کی فراہمی صوبائی اور وفاقی دونوں حکومتوں کی ذمہ داری ہے کیونکہ سیاست دانوں کے بقول کراچی چلتا ہے تو ملک پلتا ہے۔ درست ہے۔ وفاق کو 70فیصد اور صوبے کو 90فیصد ریونیو دینے والا شہر اپنے ساتھ انصاف چاہتا ہے۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی کی مدد کے لئے گزشتہ دنوں کے ایم سی امیج ریسٹوریشن کمیٹی نے کام شروع کردیا۔ جو ادارہ کو کرپشن فری، اسکو اسکے پائوں پر کھڑا کرنے اور کراچی کی خدمت سمیت ، ریونیو میں اضافہ کے لئے بھرپور پروگرام رکھتی ہے۔ ابتدائی طور پر اس کمیٹی نے 8تجاویز دی ہیں جس میں محکمہ چارجڈ پارکنگ کا بیشتر علاقہ ڈی ایم سی دیکھ رہی ہیں اس لئے ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈپٹی کمشنر اور ڈی ایم سیز کو ہدایت کریں کہ بلدیہ عظمی کراچی چارجڈ پارکنگ کریگی مکمل کنٹرول حاصل کیا جائے۔محکمہ میونسپل یوٹیلیٹی چارجز کے بل ڈور ٹو ڈور بھیجے جائیں ‘ اس سے ایک دم کروڑوں روپے کی ریکوری میں اضافہ ہوگا۔لینڈ ڈپارٹمنٹ کے ہاکس بے ؍کیماڑی بس اسٹینڈ1تا6گیٹ کی چنگی اور دکانوں کی الاٹمنٹ کی جائے انہیں لیز کیا جائے،ریٹ انتہائی کم ہیں ریوائس کئے جائیں۔کے ایم سی لینڈ پر قابض افراد سے قبضہ خالی کرایا جائے۔ واگزار لینڈ کو کمرشل بنیادوں پر 10سال کے لئے رینٹ پر دیا جائے۔ بچت بازاروں کے ریٹس ریوائس کئے جائیں ۔ بلدیہ عظمی کراچی کی ہیلپ لائن 1339کو فعال کیا جائے۔میونسپل سروسز کی معلومات، ریٹائرڈ ملازمین اپنی پنشن کی معلومات اور شکایات کا اندراج کراسکیں ۔ محکمہ فنانس اس کی نگرانی و ذمہ داری لے۔ویٹرینری ڈپارٹمنٹ میں ٹیکنیکل ڈاکٹر کی تعیناتی کی جائے۔سینئر ڈائریکٹر کووآرڈینینشن ایڈمنسٹریٹر ؍ میئر کے بجائے 5یا6رکنی گریڈ 18اور19پر مشتمل ایڈوائزری کمیٹی بنائی جائے جس میں سینئر اور تجربہ کار افسران ہوں۔ یہ مانیٹرنگ اور محکموں کی کارکردگی پر نظر اور بالخصوص ریکوریز پر نظر رکھے۔ ریونیو ٹارگٹ پورا نہ کرنے والے افسران کو اس کمیٹی کی ریکومینڈیشن پر ہٹادیا جائے۔ یہ کمیٹی ایڈمنسٹریٹر کی مدد و معاونت اور کے ایم سی کی کارکردگی کو بڑھانے کے لئے ہوگی جس کے مزید ٹی او آرایڈمنسٹریٹر تفویض کرسکتے ہیں  ۔یہ انکے کے ایم سی کے لئے خیالات ہیں لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کمیٹی کو کراچی امیج ریسٹوریشن کمیٹی کے طور پر بھی کام کرنا چاہیئے۔ اس میں تجربہ کار اور اہم 
ترین عہدوں پر فائز افسران ہیں جو سفارت کار بھی رہے ہیں ۔ضلعی انتظامیہ ، ٹریننگ، جینڈر مین اسٹریمنگ، اکنا مسٹ ،تجربہ کار افسران ہیں جو اچھی ٹیم بن کر کراچی کے لئے بہترین کام کرسکتے ہیں ۔ایڈمنسٹریٹر کو اس سے استفادہ کرتے ہوئے ادارے کی نیک نامی میں انکو استعمال کرتے ہوئے کراچی کے لئے اچھا تھنک ٹینک بھی بنانا چاہیئے۔ 2001سے 2009تک کراچی میں جگہ جگہ ہوتے ترقیاتی کام ، پانی کی بچھتی لائنیں، پلوں پر پل ، اوور ہیڈ برج،  سڑکوں کی استرکاری، شہر بھر میں بنتے فیملی پارک، شہر کو پیرس بنتابھی اسی شہر کے باسیوں نے دیکھا ۔ سگنل فری روڈز، یو ٹرن، تفریحی 
مقامات میں اضافے شہر میں لائبریریوں کے اضافے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کی بھرمار، جگہ جگہ کارڈیو سینٹر یہ سب 2001سے2010 تک اسوقت سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا نظام تھا ترقی کا پہیہ چلتا رہا۔ سٹی ناظم (میئر کراچی ) کے اختیارات چیک کئے جائیں تو سٹی ناظم نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال دونوں کے دور شہر کی ترقی سے بھرے ہوئے ہیں ۔ کے ایم سی (CDGK) کی نیک نامی ہے۔ڈپٹی کمشنر نظام کے ذریعے اجارہ داری اور آمرانہ گورننس کا تصور ہے جبکہ سٹی گورنمنٹ کا نظام عوام کی نبض اور انکے مسائل کا حل تھا ۔ پاکستان بننے سے پہلے1875 میں کراچی میں میونسپل کمیٹی قائم تھی جو انتہائی با اختیار اور بلا شراکت غیرے شہر کی خدمت میں پیش پیش تھی۔ اس وقت بھی تمام معاملات کے ایم سی دیکھتی تھی۔یہی ادارہ تھا جو شہر بھر کی زمینوں کا مالک تھا جس پر انگریز بھروسہ اور اسے انتہائی طاقتور ادارہ بنا چکے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد کیونکہ کراچی پاکستان کا دارلحکومت تھا اس لئے اس ادارے کی اہمیت اور زیادہ ہوگئی۔ گورنر جنرل کا کے ایم سی میں خطاب25 اگست 1947 کا دن بلدیہ عظمی کراچی کی تاریخ کا  یادگار دن تھا جب قائد اعظم محمد علی جناح  قیام پاکستان کے بعد پہلے بلدیاتی ادارے بلدیہ کرچی تشریف لائے۔ پاکستان کے قیام کے چند سالوں بعد ہی کے ایم سی پر ایک ضرب کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام سے لگائی گئی۔ یہ ادارہ 2001 تک قائم رہا اور 2012 میں اسے دوبارہ بحال کردیا گیا ہے۔ کے ایم سی جسے شہر کی آبادی جو اب پونے چار کروڑ کے لگ بھگ ہو چکی ہے اب میگا پولیٹن کارپوریشن کا درجہ مل جانا چاہیئے تھا ۔اب اسے اپ گریڈ کرنے کے بجائے ڈی گریڈ کیا  گیا ہے‘ دو سطحی نظام دوبارہ آچکا ہے‘ کے ڈی اے بحال کردیا گیا ہے۔ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی الگ الگ کام کر رہی ہیں ۔ بلڈنگ کنٹرول کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا دیا گیا ہے ۔ ماسٹر پلان۔ سالڈ ویسٹ، چارجڈ پارکنگ، بلڈنگ کنٹرول ، کے ڈی اے ، ایم ڈی اے ،  ایل ڈی ے سب سے میئر کی نمائندگی ختم کردی گئی ہے۔ بلڈنگ کنٹرول کا کے ایم سی ونگ ختم ہو چکا ہے۔ ڈیولپمنٹ کے لئے بھی ایک نئی اتھارٹی بنادی گئی ہے ۔ شہر کے 7 اضلاع کردیئے گئے ہیں جنکی 7 ڈی ایم سیز ہیں۔ کے ایم سی سے لوکل ٹیکس، تعلیم اور ہیلتھ لیکر ڈی ایم سیز کو دے دیا گیا ہے جبکہ سالڈ ویسٹ ، کے ڈی اے، ماسٹر پلان ، کے بی سی اے ، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، ایل ڈی اے ، ایم ڈی اے ، ماس ٹرانزٹ ، ٹرانسپورٹ ، سوشل ویلفیئر، لیبر، کووآپریٹو، کلچر، وومن ڈیولپمنٹ ، سب کے ایم سی سے لئے جا چکے ہیں ۔ آکٹرائے کے ایم سی کا بنیادی سورس تھا جو وفاق نے لیکر کے ایم سی کو مفلوج کردیا ہے ۔ او زیڈ ٹی شیئر کے ایم سی کو 1992کی شرح سے دیا جارہا ہے اسے ریوائس نہیں کیا گیا۔ کے ایم سی کا ایسا حشر ہوچکا ہے کہ گرانٹ کے بغیر تنخواہیں نہیں دی جاسکتیں۔ ترقیاتی کام سندھ حکومت پیسے دے تو ہو سکتے ہیں ورنہ سب کچھ بند۔ کے ایم سی کے ریسورسز نا ہونے کے برابر ہیں۔ سب سے بڑا ریسورس جسے بحال کرانا چاہیئے تھا وہ آکٹرائے ہے لیکن نہ اسکا شیئر آج کے حساب سے مل رہا ہے نہ ایسے محکمے ہیں جہاں سے نئی ونڈوز کھلیں۔ نہ نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں کہ انکم جنریشن ہوسکے۔ڈی ایم سیز کے ایم سی کے اختیارات استعمال کر رہی ہیں جنکا SLGA 2013   میں کہیں ذکر تک نہیں ہے جس میں لینڈ ، تجاوزات ، چارجڈ پارکنگ شامل ہیں ۔ سپریم کورٹ کو نہ صرف نوٹس بلکہ تعصب کی بنیاد پر سیاسی فیصلوں سے کراچی کو قائد اعظم کے ویژن کے برخلاف چلانے پر عدالت عالیہ سے ازخود کاروائی کی بھی شہری امید رکھتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں کے آئی آر سی امید کی کرن ہے انہیں کراچی امیج کے لئے بھی پروگرامز کرنے چاہئیں جبکہ کراچی کو کم از کم 500ارب خرچ کرکے ہی 2009کی شکل پر لایا جا سکتا ہے جس کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ 
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں