کراچی(سٹی نیوز ) اکادمی ادبیا ت پاکستان کراچی کے زیراہتمام ’ استاد دامن فن و شخصیت مذاکرہ و مشاعرہ کا انعقادکیا گیا۔جس کی صدارت معروف شاعر رانا خالد محمود نے کی۔مہمان خاص میرپور خاص سے آئے ہوئے معروف شاعر مرزا عاصی اخترتھے۔ اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں رانا خالد محمودنے کہا کہ اگر چہ پاکستان بننے سے پہلے ان کی ذہنی وابستگی کانگریس کے ساتھ تھی مگر ملک بننے کے بعد استاد دامن نے اس سرزمین پاکستان کو اپنا دین اور ایمان جاناکیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس مملکت پاکستان کو پانے کے لیے ایک آگ کادریا تھا جو پارکیا گیا تھا۔ لاکھوں بے گناہ اور معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹا تاراگیا۔ لاتعداد عورتوں کی عصمتیں لٹیں۔انسانیت بین کرتی رہی مگر درندگی قہقہے بکھیرتی رہی ۔برصغیر کی تاریخ میں یہ سیاہ باب ختم نہ ہوا تھا کہ تعمیر وطن کی بجائے اس کی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوگیا۔پاکستان کا حسین تصور اور رنگین خواب حقیقت کا روپ دھارنے سے پہلے ریزہ ریزہ ہوکر بکھر گیا۔ مرزا عاصی اخترنے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے لیے جدوجہدکرنے والے مخلص اور بے لوث کارکن نااہل اور مفاد پرست قیادت کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئے۔استاد دامن اس صورت حال سے رنجیدہ اور افردہ تھے۔لاہور ایسے شہر میں مختلف ثقافتوں اور بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے مہاجرین کا سیلاب انڈآیا ۔ جس نے یہاں کے سیاسی ’سماجی اور ثقافتی ڈھانچے کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ایک نیا رہن سہن وجود میں آیا۔ استاد دامن ان سب سے الگ تھلگ اپنے ہی خوابوں اور خیالوں میں کھوئے رہتے تھے۔تنہائی‘ اکلا پاان کا مقدربن گیا۔عرفان علی عابدی نے کہا کہ اب تک کی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ استاد دامن اور دوسرے انسان دوست پنجابی شاعروں نے فکر و عمل کی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کانہ صرف جتن کیا بلکہ رجعت پسندی کے ساتھ’جوتباہی کا دوسرانام ‘ جنگ کی ہے انہوںنے نئے معاشرے کی تعمیر میںا پنا حصہ بڑی حد تک ڈالا ہے۔ انہوں نے عوامی شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے اور اجتماعی مسائل سے جان چھڑا نے کے لیے لوکائی کو عمل پر ابھارا ہے۔