اس کالم کا عنوان دیکھ کر اگرہمارے احباب یہ سوچ رہے ہیںکہ مشاعرہ گردی بھی دہشت گردی جیسی کوئی شے ہوگی تو’’دریں چہ شک ‘‘کہے بناچارہ نہیں۔ایک زمانہ تھا شاعروں کی بادشاہان ِ وقت کے دربار کے ساتھ وابستگی کو باعثِ فخرسمجھاجاتاتھا۔ انکے متوسلین میں ملک الشعرا ٔکے نام سے باقاعدہ ایک عہدہ موجود ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ وسائل میں کمی کے باوجود دہلی کے لال قلعے میں مقیم آخری مغل فرمانروا بہادرشاہ ظفرکے تخت سے استاد ابراہیم ذوق جیسا شاعروابستہ تھااورباقاعدہ تنخواہ پاتاتھا۔مرزا اسداللہ خاں غالب جیسا تخلیق کاردن رات ’’غالب وظیفہ خوارہودوشاہ کودعا‘‘کی مالائیں جپتا تھا۔مشاعرے میںایک خاص قسم کاماحول ترتیب پاتاتھا ،جس کی موجودگی سامعین وحاضرین کو تخیل کے اڑن کھٹولے پر سوار کردیتی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو مشاعروں نے اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔درباروں سے نکل کربات جب میدانوں میں پہنچی تو علامہ محمداقبال،مولانا ظفرعلی خاں ،حفیظ جالندھری اورجوش ملیح آبادی جیسے شاعروں کا چرچا ہوا،علامہ اقبال انجمن حمایت اسلام لاہورکے جلسوں میں اپنی مترنم آواز کے ساتھ نظمیں سناتے ،مجالس ِ اقبال کی راوی بیان کرتے ہیں کہ لوگ اقبال کی پُرتاثیرشاعری سن کرفرط ِجوش میں اپنی پگڑیاں اور ٹوپیاں ہوائوں میں اچھال دیتے اور ماہی ِ بے آب اور مرغِ بسمل کی طرح تڑپنے لگتے۔بیسویں صدی کے پہلے نصف کے برصغیر میںشاعر ،شعراور سامع کی ایک ایسی تکون وجودمیں آگئی تھی جس نے شعروسخن کی دنیاکی ترقی میں اہم کرداراداکیا۔ ہمارے قلب ونظرپر شاعری کی ایسی گہری چھاپ تھی کہ انگریزوں نے بھی اس ذوق کو ایک اورزاویے سے موضوعاتی نظموں کے مشاعروں میں تبدیل کیا۔افسوس صدافسوس کہ حاکمان ِ وقت نے شعر وسخن کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ ہمارے گورنرہائوس اور ایوان صدر میں مشاعرے تو ہوتے ہیں لیکن اسکے ثمرات مقتدر طبقے تک ہی پہنچ سکے ہیں۔یہ توخیراونچی درگاہوں کا تذکرہ ہے ۔ مشاعرہ گرد مافیانے تو اپنے پائوں چھوٹے چھوٹے ضلعی ہیڈکوارٹرز میں بھی پھیلا لیے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے ضلع کے حاکم ِاعلیٰ کی ایک خواہش ہم تک پہنچی۔وہ لاہور میں اردو کی ترقی اوراس میںتحقیق وتدقیق کے مقصد کیلئے بنائی گئی ایک تاریخی انجمن کے سربراہ کی خواہش پرمشاعرہ کروانا چاہتے تھے۔ انکے پاس شاعرِموصوف کی طرف سے فراہم کردہ شاعروں کی ایک فہرست بھی تھی۔ ان شعرأکو دیے جانیوالے مجوزہ بھاری اعزازیے کی تفصیل بھی ساتھ اس پرچے کے منسلک تھی۔ اس طرح کے پروگرام مختلف ضلعوں میں منعقدہونے تھے۔افسوس کہ سرکاری سطح پرعلم وادب کے فروغ کیلئے کی جانے والی یہ کوشش تکمیل نہ پاسکی۔کسی زمانے میں مشاعرے کی صدارت اپنے عہدکے اہم ترین شاعر سے کروائی جاتی تھی۔ایک ادھ مہمان ِ خصوصی ہوتاتھا، لیکن آج کل صدرمشاعرہ کے ساتھ شاعروں کو مہمانان خصوصی،مہمانان اعزاز،خاص مہمان،خاص الخاص مہمان اورخصوصی آمدکے عہدے تفویض کرکے ہال بھرا جاتاہے۔عوام کو شاعری سے غرض ہے نہ مشاعروں سے کوئی سروکار۔ شعرا حضرات اس عالم خاک وباد میں اپنے جیب خرچ سے ابن بطوطہ کی طرح مشاعروں کی خاک چھانتے پھرتے ہیں۔دہشت گردی کی طرح مشاعرہ گردی بھی اب ایک باقاعدہ اصطلاح ہے۔ یہاں ہم آپ کو دومشاعروں کی روداد سناتے ہیں۔ایک مشاعرے کے راوی معروف صحافی حمیداختر مرحوم ہیں اور دوسری کہانی ہماری چشم دیدہے۔قیام پاکستان کے بعد حمیداختر اپنے آبائی شہرسے ہجرت کرکے اپنی ہمشیر کے پاس منٹگمری(ساہیوال)آگئے تھے،یہاں انکی منیر نیازی سے دوستی ہوگئی۔معلوم ہواکہ لاہورمیں انجمن ترقی پسندمصنفین کے زیراہتمام ایک عظیم الشان مشاعرہ ہورہا ہے، جس میں پاک وہندسے فیض احمدفیض، کیفی اعظمی،علی سردار جعفری، ساحرلدھیانوی اور جانثار اختر جیسے اہم شعرأ آئیںگے، حمیداخترکے بقول انکے ان شعرأسے ذاتی مراسم تھے،اسی نسبت سے انھوں نے سوچاکہ کیوں نہ اسی طرح کا ایک مشاعرہ منٹگمری یعنی ساہیوال میں بھی منعقد کیا جائے۔ ضلعی انتظامیہ کی سرپرستی میں مشاعرہ شروع ہوا توشعرا کو ایک عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔شاعر جوش وخروش سے شعر سنارہے تھے اورمشاعرہ گاہ میں موجود تین چار ہزار آدمی گم سم بیٹھے تھے۔ہُو کا عالم تھا، دو گھنٹے تک یہ حالت رہی کہ سٹیج پر مائیک کے سامنے شاعر کلام سنا رہا ہے، اسے صرف سٹیج پر ہی سے داد مل رہی ہے۔ منتظمین کو زیادہ پریشانی اس وقت ہوئی،جب علی سردار جعفری سے پہلے کیفی اعظمی کلام سنانے کیلئے سٹیج پر آئے، کیفی نے مشاعرہ بڑی گھن گرج کے ساتھ پڑھا لیکن مجمع پھر بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ یہ دنیا کا غالباًواحد مشاعرہ تھا۔جہاں سامعین میں سے نہ کسی نے داد دی اور نہ ہوٹنگ کی۔سبھی منتظمین شرمندہ تھے۔ مشاعرے کے بعد عام طور سے نجی محفلیں برپا ہوتی ہیں لیکن نیندپوری کرنے کابہانہ کرکے لوگ اپنی اپنی خواب گاہوں میں چلے گئے۔اگلے روز یہ عقدہ کھلا کہ مشاعرے کی رات دس بجے تک مشاعرہ سننے کیلئے صرف چالیس پچاس لوگ ہی آئے تھے۔انہیں سردار جعفری کا پتا تھا نہ وہ ساحر اور قتیل کے نام سے واقف تھے،فیض کانام بھی ان کیلئے اجنبی تھا ۔وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ مشاعرہ کس چڑیا کا نام ہے۔ یہ صورت حال دیکھ کرضلعی انتظامیہ نے خصوصی طاقت اورذہانت استعمال کرتے ہوئے مہاجرکیمپوں کے پناہ گزینوں کو وہاں پکڑ کر لانے کا اہتمام کیا اور مجمع کے پیچھے اندھیرے میں پولیس کی نفری بھی متعین کر دی تھی تاکہ کوئی وہاں سے بھاگ نہ سکے۔دوسری رودادایک ایسے مشاعرے کی ہے جو1998ء میں ملتان کے ایک نواحی قصبے نواب پورمیں ہوا ،اس شعری محفل میں ملک کے معروف شعرا ٔکودعوت دی گئی تھی۔دعوت نامے میں اعزازیے کی رقم بھی درج تھی۔یہ مشاعرہ ایک گنگناتی ہوئی نہر کے کنارے واقع سرکاری ریسٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ دوردراز کے علاقوںسے شعرأ حضرات تشریف لائے تھے۔بڑی دھوم دھام سے پروگرام کا آغازہوا،یہ شدید گرمی کاموسم تھا،ریسٹ ہائوس میں موجود آموں کے درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ مشاعرے کے دوران میں شدید آندھی آئی، شامیانے اُڑ گئے لیکن شاعروں کی ثابت قدمی دیدنی تھی۔ مشاعرے کے اختتام پر مہمانوں کیلئے شاندار عشائیے کا اعلان کیاگیاتھا۔خیر رات کے دوبجے تک شاعری کی محفل گرم رہی ۔اختتام پر معلوم ہواکہ میزبان کہیں فرارہوچکے ہیں ،اعزازیہ توخیرکیاملنا تھا رات کا کھانا بھی ندارد۔یہ ملتان شہرسے پندرہ بیس کلومیٹر دورواقع ایک گائوں تھا،جہاں مشاعرہ گاہ تک لے جانے کیلئے تو ٹرانسپورٹ مہیا کردی گئی تھی لیکن واپسی کاکوئی انتظام نہیں کیاگیاتھا۔ایک بزرگ شاعر کسی طرح تلاش کرتے کرتے مشاعرے کے ایک میزبان کے گھر تک جاپہنچے،انھوں نے اسے دعوت نامہ دکھا کرزادِسفر کا تقاضا کیا۔میزبان نے اپنی خالی جیب اسے دکھادی۔بزرگ شاعر نے فرمایا، اگرآپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو گھرسے پکڑ لیں کون سا پردیس میں ہیں۔اس پر میزبان نے بڑے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔جناب!ہم گھروالوں کو پیسے دیتے ہیں وہاں سے لیتے نہیں۔ہمیں اور بھی بے شمار مشاعروں کے قصے یاد ہیں لیکن اس وقت تک کیلئے بس اتناہی کافی ہے۔ بقول شاعر :
شاعر کو مست رکھتی ہے تعریف شعر کی
سوبوتلوں کا نشہ ہے اک واہ واہ میں
٭…٭…٭