ترقی یافتہ ممالک میں سینکڑوں ایکڑوں پر پھیلے ہوئے باغات اور اجناس خوردنی کی فصلوں کو مشینری کی مدد سے چند افراد بہت عمدگی سے کنٹرول کر لیتے ہیں۔ یہ آسانیاں آج سے چار صدیاں پہلے موجود نہ تھیں۔ زراعت کا کاروبار تو چلتا تھا لیکن لوگ بیلوں، گدھوں، گھوڑوں، خچروں، ہل، سہاگے جیسے بنیادی اوزار و لوازم کے محتاج تھے۔ کاشت ہوتی تھی اگرچہ برداشت کے مراحل کٹھن ہوتے لیکن باہمت لوگ انسانی ضروریات کے پیش نظر جاڑے کی سرد راتوں کو اور جیٹھ ہاڑ کی تپتی زمین پر مسلسل کام کر کے عامۃ الناس کی ربوبیت کے سلسلہ کو متحرک رکھتے۔
ایسے ہی جذبے والا ایک بادشاہ ہندوستان کو نصیب ہوا۔ سلطنت کا انتظام سنبھالتے ہوئے اسے ان تمام مسائل کا سامنا کرنا پڑا جو معاشرہ کے لئے پریشانی کا باعث تھے۔ اس حاکم کا نام شیر شاہ سوری تھا۔ایک مسئلہ دریائی سیلابوں کا تھا۔ ہر سال سیلاب کیوں آتے ہیں۔ مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد شاید اسے بنیادی بات سمجھ آئی کہ ہر سال مون سون کی وجہ سے دریا بھر جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہر برس سِلٹ کی ایک تہہ دریا کے پیٹ پر جم جاتی ہے۔ کئی برسوں بعد جب دریا کا پیٹ اپنی گہرائی ختم کر کے زمین کے برابر ہو جاتا ہے تو سیلابی پانی لامحالہ دریا کے دائیں بائیں پھیل کر تباہی مچا دیتا ہے۔
اب سوال یہ تھا کہ دریا کے پیٹ سے سِلٹ ہٹا کر اس کے پیٹ میں گہرائی کیسے کی جائے۔ سلطان نے مزدوروں کو کام مہیا کرنے کا فیصلہ کیا۔ خزانے کو عیاشیوں پر خرچ کرنے کی بجائے عام لوگوں کو ملازم رکھا گیا۔ جن جن علاقوں سے دریا گزرتے تھے وہاں کی آبادیوں سے مزدوروں کو دریا کے پیٹ سے سِلٹ ہٹانے پر مامور کر دیا گیا۔اس کام کا دلچسپ اور کارآمد پہلو یہ بھی تھا کہ اگر دریا کا پیٹ چار فٹ گہرا ہوتا ہے تو یہ ساری مٹی جب کناروں پر پھینکی جائے گی تو دریا کی گہرائی چھ فٹ ہو جائے گی یعنی دریا میں چھ گنا زیادہ پانی محفوظ کرنے کی استطاعت پیدا ہو جائے گی۔
شیرشاہ سوری نے ہندوستان میں دریاؤں سے بھل صفائی کا کام 1560ء کے عشرہ میں شروع کرایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تقریباً تین سو سال ہندوستانی سیلابی تباہی سے بچ گیا۔
اگر شیرشاہ سوری کے بعد آنے والے حکمران اس کارِخیر کو جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھاتے تو نہ صرف تباہ کاری سے نسلیں بچ جاتیں بلکہ جنگلوں کی تعداد میں بے انداز اضافہ ہو سکتا تھا۔
تقسیم ہند کے ساتھ ہی سیلابوں کی وجہ سے پاکستان کو بہت سی مشکلات تھیں۔ وسائل کی کمی تو تھی لیکن بیداری کا عمل بھی کمزور تھا۔ آخر اسی پنجاب میں لاہور کو مشرقی پنجاب سے بھارتی حملوں سے بچانے کے لئے بی آر بی کینال بھی رضاکارانہ طورپر کھودی گئی تھی۔ عام نہروں میں کیلے گاڑ کر بھل صفائی کا پروگرام جاری کیا گیا تھا۔
جہاں تک عوامی مدد کا تعلق ہے پاکستانی شہریوں نے ہر حادثہ کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا ہے اور دامے، درمے، قدمے، سخنے مدد کرنے میں گریز نہیں کیا۔ہمیں حکومتوں کی بے حسی، بدانتظامی اور ہنگامی (ad hoc) کارگزاری سے گلہ ہے۔ یہ شکوہ آج کی بات نہیں۔ فرائض کی عدم ادائیگی برسوں پر محیط ہے۔ مثلاً مون سون سے پہلے شہروں کے گندے نالوں کی صفائی کیوں نہیں ہو سکتی۔ میونسپل کمیٹیوں میں صفائی پر مامور عملہ سال بھر کیا کررہا ہوتا ہے۔ لوکل حکومتیں کیوں فعال نہیں ہونے دی جاتیں۔
یاد رہے :
دنیا بھر کی نعمتیں، سہولتیں، مواقع اور آسائشیں اللہ پاک کا عطیہ ہیں۔ یک طرفہ اور مفت انعام ہے۔ لیکن یہ تمام عطیات کسی وقت چھن سکتے ہیں۔ آسمانی حوادث کسی وقت زندگی تباہ کر سکتے ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ حادثات اگر نہ بھی ہوں تو محاسبہ یعنی جواب طلبی کا عمل انعامات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ہر نیکی پر اجر اور ہر نعمت پر حساب ہوگا۔ یہ احساس جب پیدا ہو تو سمت متعین ہو جاتی ہے۔