پاکستان کی تیل ضروریات کا  امریکی ادراک 

امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی تیل ضروریات کو سمجھتے ہیں‘ ہر ملک کو اپنے حالات اور تیل کی ضروریات کے مطابق فیصلہ کرنا ہوگا۔امریکہ نے روس پر اب تک تیل برآمد کرنے کیلئے پابندیاں نہیں لگائی ہیں۔ 
ماہ اکتوبر میں امریکا نے پاکستان کو روسی خام تیل کیلئے قلیل مدتی کٹ ریٹ ڈیل حاصل کرنے کی اجازت دی تھی لیکن اس طریقہ کار کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی جس کے تحت تیل حاصل کیا جا سکتا اور نہ ہی امریکی حکومت کی جانب سے اسکی کوئی تصدیق کی گئی۔اس وقت پاکستان توانائی کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے جس میں تیل سمیت بجلی اور گیس کی کمیابی نے بھی ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا ہوا ہے۔ ان بحرانوں سے نکلنے سے کیلئے پاکستان نے روس اور ایران سے معاہدے کرنے کی کوشش کی تو امریکہ نے اسے سختی سے روک دیا۔ اب امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے یہ عندیہ دیا جا چکا ہے کہ پاکستان سمیت ہر ملک اپنے حالات اور تیل کی ضروریات کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے تو پاکستان کو اس نرمی کا فوری فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بھارت تو امریکی گود میں بیٹھنے کر بھی اپنے مفادات کے تحت امریکہ کی کسی دھمکی کو خاطر میں نہیں لاتا جبکہ اسکے وزیر خارجہ سبرامنیم دوٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ بھارت روس سے تیل خریدنے کا سلسلہ بند نہیں کریگا۔ اگر بھارت اپنی خارجہ پالیسی کو اپنے ملک و قوم کے مفاد میں دیکھتا ہے تو پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرتے وقت اپنے مفادات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ پاکستان کی تیل کی ضروریات کے حوالے سے امریکہ کو بھی ادراک ہو چکا ہے اس لئے پاکستان کو روس سمیت کسی بھی دوسرے ملک سے سستا تیل خریدنے کا فوری معاہدہ کر لینا چاہیے تاکہ ملکی کمزور معیشت کو مستحکم کیا جاسکے۔ ملک میں تیل سستا ہوگا تو قوم کو بجلی بھی سستی میسر آسکے گی ۔تیل کے علاوہ بجلی اور گیس کے معاہدوں کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایران ہمیں سستی گیس فراہم کرنے کی آفر کر چکا ہے اور اس کیلئے اپنے علاقے میں پائی لائن بھی بچھاچکا ہے۔ پاکستان کو ایران کے ساتھ کیا گیا معاہدہ بہرحال پایۂ تکمیل کو پہنچانا چاہیے تاکہ عوام کو سستی بجلی اور گیس میسر آسکے اور ملک سے توانائی کے بحران کا خاتمہ ہو۔ 

ای پیپر دی نیشن